کمزور ہوتی ہوئی سلطنت عثمانیہ میں اصلاحات کے بانی خلیفہ عبدالحمید دوم کی آج ترکی میں 103 ویں برسی منائی گئی۔
خلیفہ عبدالحمید 21 ستمبر 1842 میں استنبول میں پیدا ہوئے۔ شاہی محل میں پروان چڑھنے والے عبدالحمید کو فرانسیسی، عربی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ 1839 میں ہی سلطنت عثمانیہ میں اصلاحات کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ سلطان عبدالحمید نے 33 سال حکومت کی۔ انہوں نے 31 اگست 1876 میں عنان حکومت سنبھالی۔ اس وقت سلطنت کو اندرونی اور بیرونی خطرات نے گھیرا ہوا تھا۔
23 دسمبر کو انہوں نے سلطنت عثمانیہ کا نیا آئین تیار کیا جسے "قانونِ اساسی” کہا جاتا ہے جس کے بعد سلطنت عثمانیہ میں ایک آئینی حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔
دنیا میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے سلطان عبدالحمید نے اپنی خارجہ پالیسی کو ازسر نو ترتیب دیا تاکہ سلطنت میں امن قائم رہے۔ اس خارجہ پالیسی کا بنیادی مرکز اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا تھا۔
سلطنت عثمانیہ کے دیگر سلطانوں کی طرح سلطان عبدالحمید نے اپنے لئے خلیفہ کا لقب استعمال کیا۔ انہوں نے جنوبی افریقہ اور جاپان میں مسلمان مبلغوں کو بھیجا۔ اسلام کی ترویج اور نو آبادیاتی ممالک میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔
20 ویں صدی کے آغاز میں یعنی 1900 میں سلطان عبدالحمید نے آج کے ملک شام کے دارالحکومت دمشق سے مکة المکرمہ اور مدینة المنورہ تک ریلوے لائن بچھانے کا حکم جاری کیا جو پورے حجاز تک پھیلا ہوا تھا۔ 1908 میں ریلوے لائن مدینة المنورہ تک بچھا دی گئی تھی۔
سابقہ حکمرانوں کے دور میں لئے گئے غیر ملکی قرضوں سے نجات ان کی ترجیحات میں شامل تھی۔ 20 دسمبر 1881 کو انہوں نے یورپی ممالک کے ساتھ قرضوں کی واپسی کا ایک معاہدہ بھی کیا۔
تعلیم کے شعبے میں بھی عبدالحمید نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کے دور میں بے شمار پرائمری، سیکنڈری اور ہائی اسکول کھولے گئے۔ اسی دور میں معذوروں کے لئے اسکول قائم ہوئے اور فوجی تربیت کی اکیڈمیز کھولی گئیں۔
کھیلوں کے شعبے میں بھی سلطان عبدالحمید نے بہت کام کیا۔ ان کے دور میں کئی فٹ بال کلبز قائم کئے گئے جن میں فینر باچے، گلاتا سارے اور بسکتاش کلب آج بھی ترکی کے بڑے فٹ بال کلبوں میں شامل ہیں۔
انہوں نے اپنی زاتی جیب سے سسلی عرفات اسپتال اور دارالقاضی نرسنگ ہوم قائم کیا۔ دونوں ادارے آج بھی استنبول میں کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپنی پوری سلطنت میں اپنے آباوٗ اجداد کی یاد میں کلاک ٹاورز بنائے ۔ سلطان عبدالحمید کو مغربی موسیقی، اوپیرا اور تھیٹر سے لگاوٗ تھا اور انہوں نے شاہی محل کے اخراجات کم کر کے ایک سادہ زندگی بسر کی۔
13 اپریل 1909 میں کچھ شرپسند عناصر نے سلطان عبدالحمید کے خلاف بغاوت کی اور انہیں شاہی محل سے بے دخل کرنے کے لئے ایک مہم شروع کی تاکہ ایک آئینی حکومت قائم کی جائے۔ استنبول میں شروع ہونے والی یہ شورش 11 روز جاری رہی۔
27 اپریل 1909 میں انہیں اقتدار سے الگ کر دیا گیا اور ان کے چھوٹے بھائی محمد پنجم نے اقتدار سنبھال لیا۔ اسی رات انیہں یونان کے تھیسا لونکی میں خاندان کے دیگر 38 افراد کے ساتھ جلاوطن کر دیا گیا۔
تین سال بعد یکم نومبر 1912 میں انہیں واپس استنبول لایا گیا اور انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام ضلع اُسکندر کے شاہی محل بیلربی میں گزارے۔
سلطان عبدالجید کے بیٹے سلطان عبدالحمید دوئم کا 10 فروری 1918 میں استنبول کے بیلربی محل میں انتقال ہو گیا۔
One Comment
میں ترکی اور اسکے عوام جو کہ میرے ہم مذہب بھائ ہیں دل کی گہرایوں سے پیار کرتا ہوں۔طیب اردوگان میرے پسندیدہ لیڈر ہیں۔اللہ پاک ان کو لمبی عمر صحت اور تندرستی کے سا تھ عطا فرمائے۔امین