turky-urdu-logo

کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ کبھی ختم ہو گی؟

مغربی لندن کے ریڈنگ پارک میں لیبیا کے ایک باشندے کے چاقو کے وار سے تین افراد کے جاں بحق ہونے اور تین کی حالت تشویشناک ہونے کے واقعے نے ذہنوں میں ایک سوال پھر سے دہرا دیا کہ کیا دہشت گردی کا خطرہ کبھی ختم ہو گا یا نہیں؟

لیکن اصل کہانی سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش کی طرف سے 2011 میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا آغاز ہے۔ اس جنگ کے آغاز سے اب تک یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ کیا اس جنگ میں فتح ہوئی ہے یا صرف پیسے کا ضیاع ہے؟

11 ستمبر 2001 میں نیویارک کے ٹوئن ٹاورز پر دہشت گرد حملے کے بعد ہزاروں امریکی فوجی اور نیم فوجی افغانستان، عراق، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں بھیجے گئے۔ دنیا کے کئی ممالک میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ڈرون حملوں سے نشانہ بنایا گیا۔ کئی ممالک نے دہشت گردی کے خطرات کو دیکھتے ہوئے کاؤئنٹر ٹیررازم کے بجٹ میں غیر معمولی اضافہ کر دیا۔

انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک ڈائیلاگ کی سی ای او ساشا ہیولی شلیک ان تمام واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2009 میں باراک اوباما کے صدر بنتے ہی یہ بیان بازی اپنے اختتام کو پہنچ گئی تھی لیکن حقیقی طور پر اس معاملے پر کوششوں کو مزید تیز کر دیا گیا۔ باراک اوباما کے دور میں کئی ممالک خاص طور پر افغانستان اور پاکستان میں ڈرون حملوں میں تیزی آ گئی۔ ہر کوئی صرف ایک ہی بات کئے جا رہا تھا کہ سب سے پہلے امریکہ۔ امریکہ اب بھی کاؤئنٹر ٹیررازم پر توجہ دیئے ہوئے ہے اور اس میں مزید تیزی آ گئی ہے۔

ساشا کہتی ہیں کہ جب انہوں نے امریکی محکمہ خارجہ کے کاؤنٹر ٹیررازم کے کوآرڈینیٹر ناتھن سیلز سے پوچھا کہ کیا صدر بُش کی طرف سے شروع کی گئی دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے؟ ان کا جواب نفی میں تھا۔ ناتھن سیلز نے کہا کہ جنگ ابھی تک جاری ہے اور ہم اس جنگ کو جیت رہے ہیں۔ اب امریکہ کچھ طے شدہ انفرادی اور کچھ دشمنوں کے گروپوں سے نبرد آزما ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کی حالیہ مثال شام میں داعش کی عملی کامیابیوں سے نظر آتی ہے جب انہوں نے شام کے شہر باغوز میں اپنی خلافت قائم کر لی تھی۔ گو کہ داعش کا امیر ابوبکر البغدادی مارا جا چکا ہے لیکن اس کے باوجود داعش ابھی تک کئی ملکوں میں سرگرم ہے۔

صدر بُش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز مختلف ممالک سے یہ سوال کر کے شروع کیا تھا کہ کیا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالف؟ درمیان کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا تھا۔ 2003 میں امریکہ اور برطانیہ کی عراق پر چڑھائی سے بہت سے اتحادی دشمن بن گئے۔ اس جنگ سے کئی جہادی تنظیموں نے جنم لیا۔

یو اے ای میں دی نیشنل اخبار کی ایڈیٹر مِنا العُرابی جن کا تعلق عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل سے ہیں وہ کہتی ہیں کہ امریکہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پولیس اور فوج کے ادارے کو عضو معطل بنا دیا گیا اور ہزاروں بلکہ لاکھوں عراقی شہریوں کی نوکریاں ختم کر دی گئیں۔ یہ تمام واقعات القاعدہ اور بعد میں اسلامک اسٹیٹ یعنی داعش کی بنیاد بنے۔

گو کہ باراک اوباما نے صدر بُش کی کئی پالیسیوں کو ختم کر دیا لیکن دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ جاری رہی۔ گوانٹاناموبے میں ہزاروں مشتبہ افراد کو بغیر کسی ثبوت اور عدالتی کارروائی کے قید میں رکھا گیا۔ ان میں سے کئی افراد کو سی آئی اے کی بلیک سائٹس پر بے تحاشا جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان تمام لوگوں کو مغرب نے اپنی نام نہاد اخلاقی برتری کیلئے استعمال کیا۔ ناتھن سیلز کہتے ہیں کہ امریکہ نے سابقہ غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے اور ابھی ان غلطیوں کو سدھار کر ایک نئی پالیسی تشکیل دی جا رہی ہے۔

بشکریہ بی بی سی

Read Previous

امریکہ نے ایئر انڈیا پر بھارتیوں کو واپس لے جانے پر پابندی لگا دی

Read Next

اطغرل غازی کے مجسمے پاکستان کے شہروں میں نصب

Leave a Reply