کچھ دنوں سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ روس کے ملٹری انٹیلی جنس ایجنٹس افغانستان میں امریکی اور دیگر اتحادی فوجیوں کو قتل کرنے کیلئے طالبان کو فنڈنگ کر رہے ہیں۔
روس اور طالبان نے اس خبر کی سختی سے تردید کی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس طرح کی کسی بھی خبر کی سِرے سے ہی تردید کر دی ہے۔ وہائٹ ہاؤس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کو امریکی فوجیوں کے قتل سے متعلق فنڈنگ کے بارے میں ابھی تک کوئی ٹھوس انٹلی جنس رپورٹ نہ تو صدر ٹرمپ اور نہ ہی نائب صدر مائیک پینس کے دفتر تک پہنچی ہے۔
لیکن دوسری طرف امریکی میڈیا کئی روز سے یہ خبریں شائع کر رہا ہے کہ بعض ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ روسی ملٹری انٹلی جنس ایجنٹس افغانستان میں موجود امریکی اور اتحادی فوجیوں کو قتل کرنے کیلئے طالبان کو پیسہ دے رہے ہیں۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ امریکی فوج نے کئی جگہ چھاپے مارے جہاں سے طالبان کے ٹھکانوں سے بھاری رقومات برآمد ہوئی ہیں۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھیجی جانے والی یومیہ انٹلی جنس رپورٹ میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
آئندہ امریکی صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن اپنی انتخابی مہم میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات سے گریز کر رہے ہیں۔
دوسری طرف ری پبلکنز سینیٹرز بھی اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب انٹلی جنس رپورٹس موجود ہیں تو پھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خاموشی کے کیا معنی ہیں؟
سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ روس اس خطرناک کھیل سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ روس کے افغان طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ روس کو یہ سمجھ آ رہی ہے کہ افغانستان کے امریکی فوج کے انخلا سے اسلامی شدت پسندی تیزی سے پھیل جائے گی اور اس کا سب سے بڑا نقصان خود روس کو ہو گا۔
روس کئی سال سے افغان طالبان کو اسلحہ اور پیسہ فراہم کر رہا ہے۔ دوسری طرف روس افغان حکومت کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے۔ وہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی حمایت بھی کر رہا ہے۔ روس افغانستان میں عدم استحکام چاہتا ہے۔
اصل میں روس مغرب کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ چکا ہے۔ مغربی ممالک کے سرکاری اداروں پر سائبر حملے، جھوٹی خبروں کی مہم، انتخابی عمل میں مداخلت اور مغربی ممالک میں انتہاپسندی کو فروغ دینے کیلئے فنڈنگ یہ تمام حربے روس کافی عرصے سے استعمال کر رہا ہے۔
اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ برطانیہ کے سیلسبری شہر میں برٹش کیتھڈرل میں سابق روسی انٹلیجنٹ آفیسر پر قاتلانہ حملہ اور شام میں امریکی فوج پر روسی کنٹریکٹرز کا حملہ یہ تمام ایسے اقدامات ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ روس خاموشی سے اپنے عزائم کو مکمل کر رہا ہے۔
1980 میں امریکہ کی طرف سے افغانستان کے غیر فوجی جنگجووں کو استعمال کر کے روس کو جنگ بندی پر مجبور کرنا اور افغانستان سے اس کی فوجوں کی شرمناک واپسی ابھی تک روس بھلا نہیں پایا ہے۔
امریکہ اور روس کے درمیان حالیہ کشیدگی بھی اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مسلسل بگڑ رہے ہیں۔ امریکہ کو روس کے نیوکلیئر پروگرام کو مزید جدید بنانے پر تشویش ہے جبکہ مشرق وسطیٰ میں روس کی بڑھتی مداخلت بھی امریکیوں کو پریشان کر رہی ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ روس کی انکاری بیانئے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کئے بیٹھی ہے۔ اس کی حالیہ مثال امریکی صدارتی انتخاب میں روس کی مبینہ مداخلت بھی ہے۔
یہ بات اب کسی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ امریکی صدر سخت گیر آمر رہنماؤں کو زاتی طور پر پسند کرتے ہیں جس کی وجہ سے روس کیلئے امریکی پالیسی ابھی تک انتہائی نرم ہے۔ امریکہ میں ڈیموکریٹ پارٹی اور خود ری پبلکنز سینیٹرز بھی اب تشویش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے سابق نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن اس بات کا کئی بار اظہار کر چکے ہیں کہ صدر ڈونلڈ کی بات کو سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں اور اعلیٰ قیادت کئی بحرانوں پر آنکھیں بند کئے بیٹھی ہے۔