
فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی تعداد 42 فیصد بڑھ گئی
اسرائیلی فلسطینی کسانوں کی ہتھیا کر یہودی آبادکاروں کو دے رہا ہے تاکہ وہ یہاں زراعت کا کام شروع کر سکیں۔ گذشتہ ایک دہائی میں یہاں 10 بڑے زرعی فارمز قائم ہو چکے ہیں۔ یہ ساری زمین فلسطینی کسانوں سے زبردستی چھینی گئی ہے۔
اسرائیلی حکومت علاقے میں یہودیوں کی طاقت بڑھانے کے لئے نسل پرست پالیسیاں اختیار کر رہی ہے۔ زیادہ تر سفید فام یہودیوں کو دریائے اردون اور مشرقی بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں میں بسایا جا رہا ہے۔ یہ سفید فام یہودی فلسطینیوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کر کے انہیں علاقے سے بے دخل کر رہے ہیں۔
حالیہ دو دہائیوں میں اسرائیلی حکومت زیادہ سے زیادہ یہودی بستیوں کو آباد کرنے میں مصروف رہی۔ اسرائیلی وزیر سیٹلمنٹس نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ مغربی کنارے کے مزید فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر کے نئی یہودی بستیاں بسائی جائیں گی۔
یورپین یونین نے 2015 میں نئی یہودی بستیوں کے قیام کو مسترد کرتے ہوئے اپنے عوام سے کہا تھا کہ غیر قانونی یہودی بستیوں میں تیار ہونے والی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے جس پر اسرائیل سیخ پا ہے۔
فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں دس سال کے دوران یہودی آبادکاروں کی تعداد 42 فیصد بڑھ گئی۔
اسرائیلی ہیومن رائٹس گروپ بی ٹی سیلیم اور کیروم نیووت کے مطابق اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی آبادی 4 لاکھ 40 ہزار سے تجاوز کر گئی۔
اسرائیلی حکومت آبادکاروں کو نئی یہودی بستیوں میں آباد کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور یہاں لوگوں کو کاروبار شروع کرنے کے لئے مالی مدد بھی دے رہی ہے۔
جن آبادکاروں کے پاس گھر خریدنے کے لئے سرمایہ نہیں ہے انہیں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے ذریعے فنڈنگ فراہم کی جا رہی ہے۔
مغربی کنارے میں انتہاپسند یہودیوں کی دو بڑی بستیوں مودی ان ایلیت اور بیتر ایلیت میں آبادکاروں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 2020 کے اختتام پر ان دو بستیوں میں آبادکاروں کی تعداد ایک تہائی بڑھ کر ایک لاکھ 40 ہزار سے تجاوز کر گئی جو گذشتہ دو دہائیوں میں 435 فیصد اضافہ ہے۔ بیس سال پہلے یہاں صرف 32 ہزار یہودی آبادکار ہی رہ رہے تھے۔
اسرائیلی حکومت نئے آنے والے آبادکاروں کو صنعتی زون میں مختلف مراعات اور سہولتیں دی رہی ہے جس میں لینڈ فیس کی معافی اور بے روزگاری الاؤنس بھی شامل ہے۔