
تحریر:عطاءالرحمن دراني
بامیان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی ذہن ماضی کے تاریخی دریچوں میں چلا گیا کہ پونے چھ سو سال قبلِ مسیح جب انسانی تاریخ میں یہاں ہیفتھلائٹس کی حکومت تھی۔ ان کے محلات اب بھی باقی ہیں لیکن مکین جا چکے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ چند لفظوں میں صدیوں پرانی تاریخ کو سمیٹنا مجھ جیسے انسان کے بس کی بات نہیں۔ لیکن جو وہاں کے لوگوں سے پوچھا اور دیکھا مختصراً روداد لکھتا ہوں۔
دائیں بائیں جب نگاہیں اٹھاتا تو صدیوں پرانے آثار، خستہ حالی سے اپنی تاریخ خود بتا رہے تھے۔
میں سوچتا رہا کہ مصر کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے لیکن اُس تاریخ کا خیال رکھنے والے بہت سمجھدار ہیں۔ ہماری بدقسمتی کہ ہم تاریخی آثاثے نہیں بچا سکے۔
قوموں کی تاریخی باقیات اب صرف تاریخ کا حصہ نہیں ہیں بلکہ موجودہ دور میں تاریخی سیاحت ایک مضبوط ذریعہ آمدن ہے۔ ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ ہمارے میزبان نے موبائل پر کال کی کہ "جناب کہاں پہنچ گئے ؟” میں نے بتایا کہ بامیان کے شہر میں داخل ہو چکا ہوں جہاں ایک چھوٹا سا بازار ہے۔ اس بازار کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں کی دکانیں اور مکانوں کے نقوش ونگار صدیوں پرانی روایت کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ بامیان کے لوگ صدیوں سے اپنی ضروریات اسی بازار سے پوری کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہمارے میزبان جو قریب ہی تھے ہمیں اپنے مہمان خانے میں لے گئے۔ وہاں ہم فریش ہوئے۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ان کی پرتکلف ضیافت سے لطف اندوز ہوئے اور پھر ہم ان کی قیادت میں بدھ مت کے تاریخی مجسموں کی طرف چل پڑے۔
رستے میں ہمارے میزبان نے ہمیں سیاحتی مقامات کے بارے میں بتایا کہ وقت کی قلت کے باعث وہ ہمیں صرف یہ مقامات دکھائیں گے۔ شہر ضحاک، دره اژدر (اژدها)، شہر غلغله، دره فولادی، چهل دختران، غار یخی، بتهای بزرگ بودا، مغارهها، کوه بابا اور آخرمیں بند امیر.
بامیان کا بڑا بت جسے دنیا کے سب سے بڑے مجسمے کے طور پر درج کیا گیا ہے جو 53 میٹر اونچا ہے اور اسے سلسل کہا جاتا ہے جبکہ شمشال کے نام سے جانا جانے والا چھوٹا بت جو 35 میٹر اونچا ہے۔ ان کے ارد گرد پہاڑ کے قلب میں دیگر چھوٹے تراشیدہ بت بھی موجود ہیں جو کشان کے زمانے سے ابھی تک موجود ہیں۔
تاریخ لکھنے والے بتاتے ہیں کہ سلسل جسے مشرقی بدھ بھی کہا جاتا ہے چھٹی صدی میں ایک چٹان کے پہلو میں تراشا گیا جبکہ بدھوں کے ان بتوں کے ساختی اجزا کی کاربن ڈیٹنگ سے ثابت ہوتا ہے یہ بت 570 عیسوی اور مغربی بدھ جسے لوگ شمشال بھی کہتے ہیں 618 عیسوی کے ارد گرد تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہیفتھلائٹس نے اس علاقے پر حکومت کی تھی۔
تاریخ کی ستم ظریفی کہوں یا کیا کہوں ؟ تاریخ کے صفحات میں الفاظ اس طرح ملتے ہیں کہ بدھا کے تاریخی مجسموں کو بہت نقصان حجاج بن یوسف کے زمانے میں بامیان پر حملے کے دوران پہنچایا گیا۔یہاں کے مندروں اور مجسموں کو مسخ کیا گیا جبکہ زیورات اور پرانی چیزوں کو وہ اپنے ساتھ لے گئے اور انہوں نے بیت الزہاب کے سنہری مندر اور بامیان کی شخصیات کے چہروں کے سنہری غلاف کو پیشانی کے اوپر سے نیچے تک کرید دیا گیا تاکہ بت کے نشان کو ختم کیا جا سکے۔ 1222 میں چنگیز خان، 1689 میں اورنگزیب اور 1892 میں عبدالرحمٰن خان نے ان دونوں مجسموں کو تباہ کرنے کی کوشش کی اور ان کے جسموں کو نقصان پہنچایا۔ پھر خانہ جنگیوں کے دوران بدھ کے مجسمے نقصان سے محفوظ نہیں رہے. اب لوگ پشیمانی کا اظہار ضرور کرتے ہیں کہ اس تاریخی ورثے کو یادگار کے طور پر محفوظ کرنا چاہیے تھا۔ بہرحال وہاں ہم نے تقریباً 3 گھنٹے گزارے۔
اور پھر شہر غلغلہ کی باری آئی۔
یہ شہر 2000 سال پرانی تاریخ کا حامل شہر ہے جسے تاریخ میں کئی بار تباہ کیا گیا اور چنگیز خان نے بھی اس تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
قدیم زمانے میں غلغلہ شہر بامیان کی فصیل پر تھا، جو اسلام کی آمد سے لے کر ساتویں صدی کے آغاز تک کچھ اسلامی سلاطین کا دارالحکومت رہا ہے۔ مورخین کے مطابق 618 ہجری میں چنگیز خان کی قیادت میں منگول فوجوں کے حملے سے پہلے یہ شہر خوارزم شاہی اور غوری خاندان کے حکمرانوں کا مقام تھا۔ ان کے مطابق غلغلہ شہر کی تباہی کی وجہ خوارزم شاہی حکومت کی منگول فوج کے خلاف مزاحمت اور استقامت تھی۔ اس مزاحمت کے نتیجے میں چنگیز کا ایک پوتا جس کا نام "متکن” تھا تیر سے مارا گیا تو چنگیز نے اپنی چنگیزیت میں آ کر اس شہر کو زمین بوس کر دیا اور پھر غلغلہ شہر کے غیور لوگوں کی تگڑی مزاحمت کے بعد اس شہر کو چنگیز نے آگ لگا دی۔ وقت نے رنگ بدلا۔
چنگیز کی سلطنت کو زوال آیا اور وہ گمنامی میں نابود ہوا جبکہ آج بھی غلغلہ کی کشش لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیے ہوئے ہے۔ اس کشش کی ایک بڑی وجہ بدھا کے مجسمے ہیں۔ غلغلہ کو ٹھیک سے دیکھنے کے لیے آپ کو ایک پورا دن درکار ہوتا ہے جبکہ ہمارے پاس وقت کی کمی تھی۔
شہر ضحاک بامیان میں ایک اور سیاحتی مقام ہے جو اب ایک پرانے قصبے کے کھنڈرات کا منظر پیش کرتا ہے۔ جسے چنگیز خان کی فوج نے 1222ء میں زمین بوس کر دیا تھا۔ یہ کھنڈرات بامیان کی وادی تیگاو میں 350 فٹ کی بلندی پر واقع ہیں۔ ان کھنڈرات اور ان کے ارد گرد موجود چٹانوں اور وادیوں کے سرخ رنگ کی وجہ سے اسے ’’ریڈ سٹی‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ قابلِ دید مقام ہے۔
اسی طرح دره اژدها بامیان کا ایک اور مشہور سیاحتی مقام ہے جو اونچائی 12 میٹر، قطر 10 میٹر اور لمبائی 240 میٹر پر پھیلا ہوا ہے جس کے آخری حصہ میں کڑوے، نمکین پانی کے بہت سے چھوٹے چشمے بہتے ہیں۔ اس حصے میں پانی اور معدنی رنگوں کے ساتھ کیلکیری مواد جو زیادہ سرخ رنگ میں ہوتا ہے اسکا بہاؤ ہوتا ہے جو بہنے کے بعد چند منٹوں میں ٹھنڈا ہو کر سخت ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر سرخ، پیلے اور سفید پتھر ہیں۔ اژدھے کے اوپری حصے میں گندھک کا پتھر وافر موجود ہے
جاری ہے