امریکہ نے درخواست کی ہے کہ ترکی طالبان اور افغان حکومت کے امن مذاکرات کے اگلے دور کی میزبانی کرے۔ امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے ترک وزیر خارجہ کو ایک خط بھیجا ہے جس میں ترکی سے کہا گیا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لئے دونوں فریقین کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی میزبانی ترکی کرے۔
امریکی وزیر خارجہ نے ایک خط افغان صدر اشرف غنی کو بھی بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا آئندہ دور ترکی میں کیا جائے۔
امریکی وزیر خارجہ نے خط میں کہا ہے کہ ابھی تک اگلی منزل کا فی الحال تعین نہیں ہو سکا ہے لیکن امریکہ ایک ابتدائی نتیجہ پر پہنچا ہے کہ امن بات چیت کے دور کو آگے بڑھانے کے لئے دونوں فریقین کو چاہیئے کہ وہ ترکی میں مذاکرات کریں تاکہ اعتماد کی فضا کو قائم کر کے مستقبل کی منزل کا تعین کیا جا سکے۔
امریکی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ وہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں خطے کے دیگر ممالک پاکستان، ایران، بھارت، روس، چین اور امریکہ کو بھی شامل کرے۔ سب سے پہلے ان تمام ممالک کے وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس اقوام متحدہ اپنی نگرانی میں طلب کرے تاکہ خطے کے تمام ممالک مل کر افغانستان میں قیام امن کے لئے ایک مشترکہ سوچ کو آگے بڑھا سکیں اور اس کے لئے ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کی جائے۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکی سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ طالبان اور افغان حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو انقرہ میں دعوت دے تاکہ امن معاہدے کو حتمی شکل دی جا سکے۔ امریکی وزیر خارجہ نے افغان صدر اشرف غنی سے کہا ہے کہ وہ خود یا اپنا ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد انقرہ بھیجیں تاکہ امن مذاکرات کو آگے بڑھایا جا سکے۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ابھی تک امریکہ نے یکم مئی سے اپنی تمام فوجی دستے افغانستان سے نکالنے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ اس پر ابھی امریکہ دیگر آپشنز پر غور کر رہا ہے۔
امریکہ نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ 90 دن کے لئے تشدد کے تمام راستے بند کر دے تاکہ اس دوران اعتماد کی ایک فضا قائم کی جائے اور فریقین کے درمیان ایک سیاسی معاہدہ ترتیب دیا جا سکے جو افغانستان میں دیرپا امن کا باعث بنے۔
واضح رہے کہ افغانستان اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحا میں امن مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن فریقین کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
افغان حکومت کافی عرصے سے مذاکرات کا مقام تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ دوسری طرف افغان حکومت کا موقف ہے کہ جب تک خطے کے بااثر ممالک کو مذاکرات میں شامل نہیں کیا جاتا ایک پائیدار امن کا معاہدہ ہونا ممکن نہیں ہے۔
امریکہ نے افغان حکومت کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف مذاکرات کے مقام کو تبدیل کرنے اور خطے کے دیگر ممالک کو بھی شامل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔