ترک صدر رجب طیب ایردوان نے 1922 میں ڈملوپینار کی جنگ میں ترکوں کے ہاتھوں قابض یونانی فوجوں کی شاندار شکست پر ملک کے عظیم جارحانہ اقدام کو سراہا۔
صدر ایردوان کا ترکیہ کے صوبہ کوتاہیہ میں 30 اگست کی صد سالہ تقریبات میں بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ عظیم حملہ اور اس کے بعد ہونے والی جھڑپیں دنیا کی فوجی تاریخ میں ہمہ گیر جنگ کی سب سے کامیاب مثال کے طور پر یاد کی جاتی ہیں۔
صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ عظیم حملہ، جو کوکاٹیپ سے ڈملوپینار اور وہاں سے ازمیر تک جاری رہا یہ ترک فوج کا "پہلا جارحانہ” آپریشن تھا۔
مغربی صوبے افیون میں ایک الگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی فتوحات کو گلے لگاتے ہیں، جنہیں ہم ان سرزمینوں میں اپنی قوم کے ہزار سالہ وجود کی بنیاد کے طور پر دیکھتے ہیں، بغیر کسی امتیاز کے۔”
پہلی جنگ عظیم (1914-1918) کے اختتام پر سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعدترکیہ پر اتحادی افواج نے قبضہ کر لیا تھا۔
غیر ملکی قبضے نے 1919 میں ترکیہ کی جنگ آزادی کا آغاز کیا، جس میں ترک افواج — جس کی قیادت مصطفی کمال اتاترک نے کی تھی — نے بالآخر اناطولیہ سے حملہ آوروں کو بھگا دیا۔
1922 کے 26 اگست سے 30 اگست تک، ترک افواج نے ترکیہ کے مغربی صوبہ کوتاہیا میں ڈملوپینار کی جنگ (جو یونانی ترک جنگ کا حصہ سمجھی جاتی ہے) لڑی، جہاں یونانی افواج کو فیصلہ کن شکست ہوئی۔
1922 کے آخر تک تمام غیر ملکی افواج ان علاقوں سے نکل چکی تھیں۔