فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے کہا ہے کہ ترکی لیبیا میں خطرناک گیم کھیل رہا ہے۔ فرانس نے اپنے خدشات سے تُرک صدر طیب اردوران کو آگاہ کر دیا ہے۔
فرانسیسی صدر کے بیان پر تُرک حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے ترجمان عمر چہلک نے کہا ہے فرانس بحرہ اوقیانوس اور لیبیا میں خانہ جنگی کو ہوا دے رہا ہے۔ فرانس لیبیا کی باغی ملیشیا لیبئن نیشنل آرمی کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے جس سے لیبیا میں امن کی کوششیں سبوتاژ ہو رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق فرانسیسی صدر نے کہا کہ انہوں نے صدر طیب اردوان سے بات کی ہے اور کہا ہے کہ تُرکی لیبیا میں ایک خطرناک گیم کھیل رہا ہے اور تُرکی کا لیبیا میں کردار برلن کانفرنس کے برعکس ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا کے بحران پر انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی بات کی ہے۔
واضح رہے کہ اس سال جنوری میں برلن میں لیبیا کے تنازعہ پر ایک کانفرنس ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ جنگ بندی کے بعد دونوں فریقین کے پانچ پانچ نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے گی جو مذاکرات کے ذریعے مستقبل کا ایک لائحہ عمل طے کرے گی۔ انہوں نے کہا جنگ بندی کے بجائے لیبیا میں خانہ جنگی تیز ہو گئی ہے۔ لیبئن نیشنل آرمی کے فیلڈ مارشل خلیفہ ہفتار اور گورنمنٹ آف نیشنل ایکورڈ کے فائز السراج کی فوجوں کے درمیان جنگ جاری ہے۔
تُرکی اس وقت اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ گورنمنٹ آف نیشنل ایکورڈ کی حمایت کر رہا ہے۔ تُرکی لیبئن نیشنل آرمی کے خلاف جنگ میں لیبیا کی آئینی حکومت کو فوجی اور لاجسٹک مدد بھی دے رہا ہے۔
واضح رہے کہ روس، مصر، متحدہ عرب امارات لیبیا کی باغی ملیشیا لیبئن نیشنل آرمی کو سپورٹ کر رہے ہیں جبکہ تُرکی لیبیا کی آئینی حکومت کے ساتھ کھڑا ہے۔ مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے بھی لیبیا میں فوج بھیجنے کی دھمکی دے دی ہے جس کے بعد خطرہ ہے کہ لیبیا میں نیٹو کے رکن ممالک کے درمیان آپس میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔ روس، فرانس اور تُرکی نیٹو کے اہم رکن ممالک ہیں۔