انقرہ کی ایک عدالت نے 2016 میں صدر طیب اردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے واقعے میں ملوث 121 افراد کو عمر قید کی سزا کا حکم سنایا ہے۔
عدالت نے 86 مشتبہ افراد کو ملک کے آئین کی خلاف ورزی اور 35 دیگر افراد کو اسی جُرم میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ عدالت نے تمام مجرموں کو قید کے دوران سخت سزا کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ یہ تمام مجرم موت کی سزا کے مستحق تھے لیکن چونکہ 2004 میں تُرکی نے یورپین یونین میں شمولیت کیلئے موت کی سزا کو ختم کر دیا تھا لہذا تمام مجرموں کو عمر قید کی سزا کا حکم دیا گیا ہے۔
15 جولائی 2016 کی رات کو فوج کی ایک کمانڈ نے صدر طیب اردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی تھی جس کے تحت 245 افراد کے خلاف مقدمات دائر کئے گئے تھے۔ عدالت نے ایک سابق کرنل ارکان اوکتم کو جانتے بوجھتے قتل کے الزام میں بھی تاحیات جیل کی سزا دی ہے۔
منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے واقعے میں 248 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ تُرک وزیر انصاف عبدالاحمد گُل نے کہا ہے کہ منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں 289 افراد کے خلاف عدالت میں کیسز زیر سماعت تھے۔ جدید تُرکی میں یہ سب سے طویل قانونی کیس تھا۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے مقدمے کی سماعت تین ماہ تک التوا کا شکار رہی۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی اور آج عدالت نے اپنا حتمی فیصلہ جاری کر دیا۔
یہ کیس 2017 میں شروع ہوا تھا تاہم اس سے منسلک دیگر کیسز ابھی تک عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
تُرک حکومت کا کہنا ہے کہ امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن نے اس فوجی بغاوت کا حکم دیا تھا تاہم وہ اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد پورے ملک میں مشتبہ افراد کی سخت نگرانی شروع کر دی گئی تھی۔ قریباً ایک لاکھ سرکاری ملازمین اور افسروں کو نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا تھا۔