مجھے سانس نہیں آرہا” ان الفاظوں کو سنتے ہی آنکھوں کے سامنے صرف ایک ہی چہرہ آجاتا ہے جورج فلویڈ ،جس معصوم کی صرف ایک ہی غلطی تھی، رنگ۔
انسان اپنی نسل پرستی اور اپنی ظاہری شکل کی خوبصورتی میں اتنا مشغول ہو چکا ہے کہ انسانیت کو ہی بھول چکا ہے۔آجکل کا انسان ظاہری چمک کی خاطر اپنے ہونے کا مقصد، ایک انسان کا دوسرے انسان کی طرف فرض سب کچھ بھول بیٹھا ہے۔
مگر جیسے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی ویسے ہی ہر شخص ایک جیسا نہیں ہوتا۔جورج فلویڈ کی موت کے بعد یورپ ہو یا ایشیا ہر جگہ بلیک لائیوز میٹڑ کے نام سے مہم چلائی گئی جس نے دنیا کے سامنے یہ سچائی لا کر رکھ دی کہ انسانیت ابھی بھی زندہ ہے۔ابھی بھی ایسے لوگ باقی ہیں جو انسان کو انسان سمجھتے ہیں ناکہ اْسکو اْسکے رنگ کے باعث کم تر سمجھ کر اس سے اسکی سانسیں ہی چھین لیں۔
اس حادثے کے بعد ہر کسی نے اپنی اپنی طاقت کے مطابق اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا نا شروع کردی ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ تب پیش آیا جب فیس بک کے مالک مارک زکربرگ نے ڈونلد ٹرمپ کی متنازعہ پوسٹ کو نا ہٹانے کا فیصلہ کیا جسکی وجہ سے فیس بک کو شدید تنقید کا نشا نہ بنایا جا رہا ہے یہاں تک کہ اس میں کام کرنے والے لوگ بھی اس فیصلے کے خلاف ہے۔
مشہور کمپنیوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جب تک فیس بک اس قسم کے نفرت پھیلانے والی پوسٹ کو اپنے پلیٹ فارم سے ختم نہیں کردیتی تب تک وہ کوئی بھی ایڈ نہیں دیں گی۔
پیٹاگونیا کا کہنا ہے کہ اسے اس بات پر فخر ہے کہ وہ بلیک لائیوز میٹرز کا ساتھ دے رہی ہے۔ہم فیسبک سے ہر قسم کے ایڈ کو جولائی تک ہٹادیں گے تب تک جب تک فیس بک اس مسلے کے خلاف کوئی سخت ایکشن نہیں لیتی یا ایسے اقدامات نہیں کرتی جس سے اس چیز کو روکا جا سکے۔
نورتھ فیس کا کہنا تھا کہ جب تک نسل پرستانہ ، پرتشدد یا نفرت انگیز مواد اور غلط معلومات کو پلیٹ فارم پر گردش کرنے سے روکنے کے لئے سخت پالیسیاں نہیں لگائی جائیں گی تب تک وہ اشتہارات نہیں لگائین گے۔
فیس بک نے کہا کہ وہ مساوات اور نسلی انصاف کو آگے بڑھانے کے لئے پرعزم ہے۔
اس نے اتوار کو شائع ہونے والی ایک لمبی پوسٹ میں کہا کہ ہم اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے ، تنوع اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ پیغام ٹویٹر پر بھی شیئر کیا گیا تھا ، جہاں یہ ایک انتباہی لیبل کے پیچھے چھپا ہوا تھا اس بنیاد پر کہ اس میں تشدد آمیز الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
اینڈرس تجزیہ میں ٹیک کے سربراہ ، جوزف ایونزکا کہنا تھا کہ فیس بک امریکی حکومت کی طرف سے مزید ضابطے سے بچنے اور اشتہارات کی آمدنی کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیس بک بڑی بڑی کمپنیوں کے ذریعہ وہاں موجود کسی بھی میڈیا تنظیم کے مقابلے میں بہتر بائیکاٹ کا موسم پیش کرسکتا ہے ، کیونکہ اس کی زیادہ تر آمدن چھوٹے اشتہاریوں سے ہوتی ہے ، جو سیاسی مطالبات کرنے کے لئے اکٹھے ہونے کا امکان نہیں رکھتے ہیں۔
جبکہ ابھی کوویڈ -19 کے باعث مالی حالات خراب ہونے کی وجہ سے چھوٹی کمپنیاں دباو کا شکار ہیں۔