یہ مضمون موسی خان کے براہ راست مشاہدے پر مبنی ہے جو 2016 میں ترکیہ میں پی ایچ ڈی کا طالب علم تھا اور اس معجزاتی رات کو انقرہ میں موجود تھا۔
یہ 15 جولائی 2016 کی آدھی رات کے تقریباً 3 بجے کا وقت تھا جب میں انقرہ کے مرکز کزلائی کے قریب سڑک پر پڑی ایک ادھیڑ عمر کی کمزور عورت کو دیکھا۔
میں نے انہیں پانی کا بوتل لا کے دیا اور انہیں ایک آرام دہ جگہ پر بٹھایا۔ میں نے ان سے انتظار کرنے کو کہا، تاکہ میں ٹیکسی یا ایمبولینس کو کال کرسکوں لیکن اس خاتون نے فوراً جواب دیا “بین ہستانیے گیتسم، الکیمی کم گرتاراجک؟” اس کا مطلب ہے کہ اگر میں ہسپتال چلی جاؤں تو میرے ملک کو کون بچائے گا؟
دل کو چھو دینے والے ان الفاظ نے مجھے تاریخ یاد دلادی کہ یہ خاتون سلطان صلاح الدین اور فاتح محمد سلطان کی قوم سے تعلق رکھتی ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کے جذبے کو شکست نہیں دے سکتی۔
کچھ یادگار لمحات اور واقعات ہمیں کتابوں سے زیادہ سکھا جاتے ہیں۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے ترکیہ میں 15 جولائی کی رات براہر است دیکھی جب فوج کے اندر سے کچھ غداروں نے جمہوری حکومت پر حملہ کیا تھا اور کلاشنکوفوں، ٹینکوں، ہوائی جہازوں اور دیگر بھاری ہتھیاروں کی مدد سے اقتدار چھیننے کی کوشش کی تھی۔ اس نازک وقت میں جب ترکیہ کو اپنی نظریاتی اور جغرافیائی حساسیت کی وجہ سے مقامی علاقائی اور بین الاقوامی خطرات کا سامنا ہے، میں ترکیہ کے خلاف اس سازش کے حوالے سے بہت سی باتیں لکھنا چاہتا ہوں۔
لیکن یہاں میں صرف 15 جولائی کی رات کے اپنے اتی تجربے کا اظہار کر رہا ہوں۔
میں ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ میں اپنے دوست کے ساتھ اس کے گھر پر ٹھہرا ہوا تھا۔ رات تقریباً 10 بجے، میں باہر نکلا تو دیکھا کہ ہوا میں معمول کے برعکس طیارے اڑ رہے ہیں۔ لوگ اس پریشان کن حالات کے بارے میں کچھ جانے بغیر اپنے گھروں کی بالکونیوں سے خوفزدہ چہروں سے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ میرے لئے حالات کا سمجھنا اور بھی مشکل تھا کیونکہ یہ پہلا سانحہ تھا جو میرے ترکیہ میں قیام کے دوران پیش آیا تھا۔ اگرچہ میں نے اپنے ملک پاکستان میں فوجی بغاوت اور عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران بدترین وقت دیکھا ہے لیکن ترکیہ میں ایسے حالات کا پیدا ہونا میرے لیے منفرد تھا ۔ گھر واپس آنے کے بعد میرا دوست گلی میں دوسرے لوگوں کی طرح حیران کن نظروں سے انتظار کر رہا تھا۔ میں نے ٹیلی ویژن آن کیا اور کچھ خبریں تلاش کرنے کے لیے مختلف چینلز سرچ کرتا رہا۔ کچھ چینلز استنبول کے باسپورس پل (15) جولائی شہداء (پل کو فوج کے دستوں سے بھرا ہوا دکھا رہے تھے جو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ میں نے قومی ٹی وی چینل ٹی آر ٹی کو آن کیا۔ مزید تجسس کے باعث میں نے ٹی۔ آر۔ٹی میں کام کرنے والے اپنے ایک صحافی دوست کو فون کیا جس نے مجھے فوجی بغاوت کے بارے میں بتایا۔
جب تھوڑی دیر بعد ٹی آر ٹی سے نشریات بند ہو گئی تو میں سمجھ گیا تھا کہ ریاست فوج کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ جب میں نے انٹر نیٹ پر بین الاقوامی میڈیا بی بی سی، سی این این وغیره سرچ کرنا شروع کیا تو بین القوامی میڈیم میں فوجی بغاوت کے حق میں ایک بھرپور پروپیگنڈہ نوٹ کیا کیونکہ انہوں نے کسی نتیجے سے پہلے ہی ترکیہ میں مارشل لا کی تصدیق کر دی تھی۔ سیاسی قیادت بالخصوص صدر رجب طیب ایردوان کے حوالے سے بہت سی افواہیں پھیلی تھیں کہ وہ بھاگ کر کسی دوسرے ملک میں پناہ لینے کے لیے تیار ہیں۔ میں مکمل طور پر مایوس تھا اور خبروں میں کسی معجزے کا انتظار کر رہا تھا۔
ملک کے تمام اہم مقامات فوجی دستوں سے بھرے ہوئے تھے اور وہ جمہوری حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے اپنی انتہائی طاقت کا استعمال کر رہے تھے۔ میں انقرہ کے مرکز کے قریب تھا جہاں ایک بڑی اور خوفناک آواز نے ہمیں ایک لمحے کے لیے مزید خوفزدہ کردیا۔ کہیں ہم گر گیا تھا جس سے ہمارے گھر کی کھڑکیوں اور وینٹی لیٹرز کے شیشے ٹوٹ گئے تھے۔ بعد میں پتہ چلا یہ اُن بموں کی آواز تھی جو ترک پارلیمنٹ پر پھینکے گئے تھے۔ میں مسلسل قرآن پاک کی تلاوت کررہا تھا اور یہی سوچ رہا تھا کہ اگلا ہدف ہم ہو سکتے ہیں۔ آدھی رات کی تاریکی میں دھماکوں، ہوائی جہازوں، ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ اور گولہ باری کی خوفناک آوازوں نے اسے قیامت کی رات بنا دیا تھا۔ قومی ٹیلی ویژن ٹی۔ آر۔ ٹی پر مارشل لا کا اعلان ہوچکا تھا۔ لیکن اعلان کرنے والے نیوز کاسٹر کے خوفزدہ چہرے اور آواز سے واضح تھا کہ وہ گن پوائنٹ پر پیپر پڑ ھ رہی ہے۔
صدر ایردوان نے قوم کو غداروں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کی اپیل کی تھی، معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے تھے لیکن صدر ایردوان کی آواز اور الفاظ نے کہانی کو ایک نیا موڑ دیا تھا اور پانچ منٹ کے اندر مجھے گلیوں سے شور سنائی دینے لگا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ ہر عمر کے لوگ بغیر کسی خوف و ہراس کے احتجاج میں حصہ لینے کے لیے دوڑ رہے تھے۔ سڑکوں پر موجود لوگوں کو دیکھ کر مجھے بھی معجزات کی اس رات میں ہونے والی واقعات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے کتابیں پڑھی تھیں اور دنیا کے مختلف انقلابات کے بارے میں فلمیں دیکھی تھیں لیکن یہ پہلا موقع تھا جب میں نے ایک ایسا زنده انقلاب دیکھا جس نے ایک رات سے بھی کم وقت لیا اور دنیا کو ایک ناقابل یقین پیغام دیا۔
دہشت گردی سے متاثرہ ملک کا شہری ہونے کے ناطے میں نے بہت مشکل حالات کا سامنا کیا ہے لیکن کبھی بھی ایسے حالات نہیں دیکھے تھے جہاں عام لوگ کسی ایکشن فلم کی طرح ٹینکوں اور مسلح افواج کا بلا خوف مقابلہ کر رہے ہوں۔ لوگوں کے ہاتھوں میں سوائے قومی جھنڈوں کے کچھ نہیں تھا، لوگ فوج کے دستوں کو بیرکوں میں واپس جانے کے نعرے لگا رہے تھے۔ عوام کے منہ پر ایک ہی نعرہ تھا بو الکے بزم بزملے کالجک” یعنی یہ ملک ہمارا ہے اور اسکی ملکیت ہماری رہےگی۔ انقرہ شہر کا مرکز کیز الائی مکمل طور پر لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ قابل ذکر بات تمام لوگوں کا ان کے سیاسی پس منظر سے ہٹ کر انکا اتحاد تھا۔ کوئی بھی اپنی پارٹی، نظریہ یا گروہ کی وکالت نہیں کر رہا تھا بلکہ ہر ایک قومی نعروں کے ساتھ ترکیہ کا لال جھنڈا لہرا رہا تھا۔ ترکیہ میں موجودہ سیاسی جماعتیں اپنے نظریات اور ایجنڈے کے ساتھ ایک دوسرے کے بالکل خلاف ہیں۔ قومی سیاست میں وہ پانی اور آگ کی مانند ہیں لیکن اس رات انہوں نے اپنے ملک کو بچانے کے لیے ایک جاندار اور دوراندیش اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ ٹینکوں کے نیچے لیٹنے، فوجی گاڑیوں پر چھلانگ لگانے اور فضائی جیٹ طیاروں کی گولہ باری کا سامنا کرنے والے لوگوں کو ایکشن فلموں میں دیکھا جا سکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ 15 جولائی کی وہ معجزاتی رات تھی جہاں گولی سے ہم ہوائی جہاز ٹینک اور فورسز کو عام لوگوں نے خالی ہاتھ شکست دی تھی۔ یہ میرے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھا کیونکہ میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہا تھا جو اپنی ممکنہ موت سے باخبر تھے اور شہیدوں اور زخمیوں کو ایمبولینسوں تک لے جا رہے تھے۔ مسلح افواج لوگوں کو اپنی بھاری گاڑیوں سے کچھل رہے تھیں اور سویلین کے موٹر کاروں پر ٹینک چھڑا رہے تھے ۔
اسی دوران ایک صحافی نے صدر رجب طیب ایردوان تک رسائی حاصل کی۔ صدر طیب ایردوان استنبول میں اتاترک ایئرپورٹ پر موجود تھے جو اس وقت ترکیہ کے دوسرے شہر مارمارس سے استنبول پہنچے تھے۔
صدر ایردوان کے گفتگو، ردعمل اور جرات نے مجھے لیڈروں کی اصل روح کی یاد دلائی جو کھبی بھی قوم سے یہ نہیں کہتے کہ ” جاو مقابلہ کرو ” بلکہ ایردوان کی طرح فرنٹ سے لیڈ کرتے ہیں۔ ایردوان نے قوم سے کہا کہ ” خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، میں نکلا ہوں او سب نکلے اور مل کر مقابلہ کرے۔
اسی دوران میں دوستوں سے بین الاقوامی میڈیا چینلز اور سوشل میڈیا گروپس کے ساتھ خبریں بھی شیئر کر رہا تھا۔ میں نے کیا کہ نہ صرف اندر بلکہ لاکھوں غیر ترک خیر خواہ ترکیہ کا خیال رکھتے ہیں کیونکہ اس رات وہ صبح تک جاگتے رہے تاکہ وقتاً فوقتاً خود کو اپ ڈیٹ کرتے رہیں۔
لوگوں کی ایک بڑی تعداد جو دنیا بھر میں اپنی عبادتوں میں ترکیہ اور ایردوان کے لیے دعائیں کرتے رہے۔ میں نے پاکستان میں ایک ایسے شخص کا انٹرویو کیا جس نے ترکیہ کے واقعے کے بعد شکر کے طور پر ایک گائے ذبح کی تھی۔ جولائی کی رات کے بعد میرے ذہن میں چند سوالات تھے اور اس معاملے پر تحقیق کرنے کی کوشش کی کہ وہ کون سے محرکات تھے جن کی بنا پر عام لوگ بغیر کسی خوف کے موت کو گلے لگا رہے تھے۔ میں نے اس رات باہر نکلے لوگوں سے کچھ انٹرویوز کیے جن سے مختلف لیکن دلچسپ جوابات ملے تاہم تمام جواب دہندگان میں قوم پرستی اور حب الوطنی کا عنصر مشترک تھا۔
فرانس اور ترکیہ کی دوہری شہریت رکھنے والا جواب دہندہ کھل کر موجودہ حکومت اور صدر ایردوان پر تنقید کر رہا تھا لیکن انکا کہنا تھا کہ اس رات میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ ہم حکومت کے خلاف ہیں ریاست کے نہیں، اس لیے یہ وقت بچانے کا ہے۔ کہتے ہیں ہم نے اس رات صدر ایردوان کی حمایت کی، حالانکہ ہم ان کے سیاسی اور نظریاتی وژن سے نفرت کرتے ہیں۔ ایک اور شخص نے بتایا کہ اس رات صدر ایردوان کی باتیں سن کر انہوں نے وضو کیا، نفل نماز پڑھی اور باہر نکل آیا ۔ جب میں نے جان بوجھ کر وضو کرنے کی وجہ پوچھی تو انکا جواب تھا کیونکہ پہلی بار میرے ملک نے مجھ سے قربانی مانگی تھی اور میں شہید یا غازی بننے کے لیے تیار ہو کر نکلا تھا “۔ اس رات پولیس میں شہید ہونے والی نوجوان خاتون کی والدہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے مزید بچے ہوتے تو وہ ملک پر سب قربان کر دیتی۔
واضح رہے 15جولائی 2016 کی رات کو ترکیہ میں فوجی بغاوت کی کوشش ہوئی تھی۔ یہ بغاوت ترک مسلح افواج کے اندر ایک دھڑےکی جانب سے حکومت اور صدر رجب طیب ایردوان کا تختہ الٹنے کی کوشش تھی۔ بغاوت کی کوشش میں فوجی اہلکاروں کا ایک گروپ شامل تھا جو صدارتی محل اور بڑے ہوائی اڈوں سمیت اہم اداروں اور حکومتی بنیادی ڈھانچے پرقبضہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
بغاوت کی کوشش کے دوران افراتفری پھیل گئی جب فوجی دستوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، اور شہری بغاوت کی مزاحمت کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔
صدر ایردوان، جو اس وقت چھٹی پر تھے، نے فیس ٹائم ایپ کے ذریعے قوم سے خطاب کرتے ہوئے عوام سے بغاوت کی مزاحمت کرنے اور حکومت کی حمایت کے اظہار میں سڑکوں پر آنے کی اپیل کی تھی اور ہزاروں شہریوں نے ان کی کال پر لبیک کہ کر بغاوت کرنے والی قوتوں کا مقابلہ کرکے بغاوت کی کوشش کو ناکام بنایاتھا۔
اسی رات وفادار فوجی یونٹس اور پولیس فورسز نے اہم مقامات پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا تھا اور بغاوت کی کوشش بالآخر پوری طرح ناکام ہو گئی تھی۔ پرتشدد جھڑپوں کے دوران سیکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔