turky-urdu-logo

پاک افغان طور خم سرحد کی بندش اور آٹھ سالہ افغان بچے کی بے گور و کفن لاش

رپورٹ: شبیر احمد

آٹھ سالہ افغان بچہ محمد یاسین کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھا۔ محمد یاسین آٹھ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔اپنے جگر گوشے کی زندگی بچانے کی خاطر  محمد یاسین  کے والد گل محمد اسے پاکستان علاج کی غرض سے لائے۔گل محمد کو یقین تھا کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہوں گے اور ان کا معصوم بچہ اپنی بہنوں کا مضبوط سہارا بنےگا۔محمد یاسین کی حالت زار سے مجبور ہوکر گل محمد نے ایک سال پہلے طور خم سرحد پار کی۔بیٹے کے علاج کی نیت لیےپہلے پہل پشاور کے شوکت خانم اسپتال کا رخ کیا۔ تاہم  وہاں سے علاج ممکن نہیں ہو سکا ۔

محمد یاسین کے والد گل محمد نے ترکیہ اردو  سے بات کرتے ہوئے کہا  ہےکہ ‘شوکت خانم میں علاج نہ ہونے کے بعد ، میں نے پشاور کمپلیکس میں اپنے بیٹے کو داخل کروایا۔ یہاں میرے بچے کے دو آپریشن ہوئے۔ ادھر ہی علم ہوا کہ میرے بیٹے کو کینسر ہوا ہے۔ یہ سنتے ہی جیسے میرے قدموں تلے سے زمین نکل گئی’۔

گل محمد نے حوصلہ سنبھالتے ہی بیٹے کو سی ایم ایچ راولپنڈی  کی جانب روانہ کیا۔ افسوس کے ساتھ وہاں بھی علاج ممکن نہیں ہوسکا۔ یہ سب کہتے ہوئے گل محمد کی آواز لڑکھڑانے لگی اور کہا  کہ ‘ بار بار علاج ناممکن ہونے کی ایک وجہ تو میری غربت بھی تھی۔ ہر جگہ علاج کا بہت زیادہ خرچہ آرہا تھا، مگر کیا کرتا، بیٹے کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار تھا’۔

گل محمد یہاں سے واپس افغانستان چلے گئے تھے۔ افغان صوبہ ہلمند میں ان کے بیٹے کا علاج جاری تھا۔ تین ستمبر کو انہوں نے ایک بار پھر آس لیےطورخم سرحد پار کی۔پشاور کمپلیکس میں بیٹے کا علاج شروع کیا۔خدا کا کرنا تھا کہ  تیسرے آپریشن کے بعد محمدیاسین کی وفات ہوگئی ۔ اب کی بار محمد یاسین کے ساتھ اس کی ماں بھی آئی ہوئی تھی۔ پیچھے آٹھ بہنیں افغان صوبہ ننگرہار میں منتظر تھی کہ ان کا بھائی صحت یاب ہو کر گھر کی دہلیز پر قدم رکھے گا۔

یہ 6 سمتبر جمعرات کی صبح تھی کہ محمد یاسین آپریشن کے دو دن بعد پشاور کمپلیکس میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر کے چلا گیا۔اب اگلا  مرحلہ گل محمد کے لیے اپنے بیٹے کی تدفین تھی جو وہ اپنی زمین پر کرنا چاہتے تھے۔ والد گل محمد کو معلوم نہیں تھا کہ آج 6 ستمبر کے دن پاک افغان سرحد پر اہلکاروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے اور سرحد غیر معینہ مدت تک بند کردی گئی ہے۔گل محمد نے بتایا کہ’ اسی زور اپنے بیٹے کی نعش لے کر  طورخم سرحد گیا۔ وہاں ایک بجے تک انتظار کرتا رہا۔ کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔ تمام تر کاغذات میرے ساتھ تھے۔ ہمیں کسی نے داخل نہیں ہونے دیا۔ ایک ہی جواب تھا جو مجھے ملتا تھا کہ ہمیں اجازت نہیں ۔  اسلام آباد اور کابل سے اجازت ملے گی تو ہوسکے گا’.

کسی زمانے میں محمد یاسین کے والد گل محمد اور پشاور سے تعلق رکھنے والے وحید اللہ جلال آباد میں ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ان دونوں کی دوستی بنی ۔ وحیداللہ بتاتے ہیں کہ’ایک دن مجھے گل محمد کا پیغام ملا ۔ گل محمد اپنے بیٹے کو پاکستان علاج کے لیے لانا چاہتے تھے۔ یہاں ان کا کوئی نہیں تھا۔گل محمد نے مجھ سے کہا اگر میرے ساتھ ہمدردی کرسکتے ہو۔ مجھےجگہ فراہم کرسکتے ہو۔ تو میں اپنے بچے کو پاکستان لانا چاہتا ہوں۔ لہذہ، میں نے ان کا خیر مقدم کیا۔ اسپتال میں ضروریات کا خیال رکھااور رہنے کے لیے اپنے گھر میں جگہ دی’۔

وحید اللہ اس وقت سخت اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘میرے بھروسے پر انہوں نے پاکستان کا رخ کیا تھا ، تاہم اب میرے وطن میں ان کے بیٹے کی نعش بے یار و مدد گار پڑی ہے۔ وہ اپنی سرزمین کے لیے ترس رہا ہے۔ اس وقت محمد یاسین کی نعش پشاور حیات آباد کمپلیکس کے مردہ خانے میں پڑی ہے اور اس کے ماں باپ میرے ہاں ٹھہرے ہوئے ہیں’۔

گل محمد نے مزید کہا کہ ‘میں التجاکررہا ہوں  میرے پاس میرا وفات شدہ بیٹا ہے اور میں نے ننگرہار جا کر اس کی تدفین کرنی ہے۔کوئی مجھے اپنے قریب تک نہیں آنے دے رہا ۔میں طور خم سرحد کھلنے کا انتطار کر رہا ہوں ‘۔

‘میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے بچے کو اپنے وطن اپنی زمین لے جا کر دفناؤں ،وہاں اس کی بہنیں اس کا چہرہ دیکھنے کی منتظر ہیں۔یہاں میرا کوئی نہیں۔ میرے پاس تو پاکستانی نمبر بھی نہیں ہے۔ میرے بچے کی جسد  خاکی گیٹ کھلنے تک ادھر ہی پڑے رہے گی’۔

طورخم سرحد ڈیوٹی پر تعینات ایک آفسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘ممالک کے درمیان تنازعات وقتا فوقتا جنم لیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو اس بابت نقصان سے محفوظ رکھا جائے۔ لاکھ کوشش کے باوجود ہم ان کی میت کو پار کرنے میں مدد نہیں کرسکتے ۔ دونوں ممالک کو عوام کی مشکلات کا خیال رکھنا چاہیے’۔

Read Previous

کورولش عثمان میں ترگت کا کردار ادا کرنے والے اداکار شادی کے بندھن میں بندھ گئے

Read Next

ترک وفدکا سرکاری دورے کے دوران آذربائیجان کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا عزم

Leave a Reply