
سوئٹزرلینڈ نے مسلمان خواتین کے چہرے ڈھانپنے پر پابندی لگا دی ہے۔ سوئٹرزلینڈ نے اتوار کو ایک ریفرنڈم کروایا جس میں مسلمان خواتین کے نقاب پہننے پر پابندی سے متعلق عوام کی رائے مانگی گئی تھی۔
ریفرنڈم میں 51.2 فیصد عوام نے مسلمان خواتین کے نقاب، حجاب اور برقعہ پہننے پر پابندی لگانے کا فیصلہ دیا۔ مسلمان خواتین پر نقاب، حجاب اور برقہ پہننے پر پابندی کا مطالبہ سوئٹرزلینڈ کی دائیں بازو کی سیاسی جماعت سوئس پیپلز پارٹی نے کیا تھا جس پر حکومت نے اتوار کو ریفرنڈم کروایا۔
سوئس پیپلز پارٹی نے "انتہاپسندی کو روکو” کا نعرہ لگایا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ سوئس معاشرے میں مسلمان خواتین کے نقاب اور حجاب پر پابندی لگائی جائے۔
سوئٹزرلینڈ کے نیشنل براڈکاسٹر کی نیوز ویب سائٹ "سوئس انفو” نے حکومت کے اس فیصلے پر کہا ہے کہ یہ حکومت اور پارلیمنٹ کی اکثریت کی شکست ہے جنہوں نے اس بنیاد پر پابندی کی مخالفت کی یہ غیر ضروری تھا۔ سوئٹزرلینڈ میں گو کہ نقاب پہننے والی خواتین کی تعداد محدود ہے لیکن اس کے باوجود مقامی حکومتیں اس پر از خود قانون سازی کر سکتی ہیں تو پھر اس کے لئے ریفرنڈم کروانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
اسلامک سینٹرل کونسل آف سوئٹزرلینڈ نے ریفرنڈم کے نتائج کو مایوس کن قرار دیا اور کہا کہ سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہونے والے اور یہاں پروان چڑھنے والے مسلمانوں کے لئے یہ ایک امتیازی قانون ہے۔ اس قانون سے سوئٹزرلینڈ کے آئین میں اسلام دشمنی کو فروغ حاصل ہو گا۔
سوئس حکومت کا کہنا ہے کہ ریاست کسی بھی خاتون کو مجبور نہیں کر سکتی کہ وہ کیا پہنے اور کیا نہ پہنے لیکن یہ نقاب پر پابندی ووٹ کے باعث لگائی گئی ہے جو اب آئین کا حصہ ہے۔
سوئٹزرلینڈ کی مجموعی 86 لاکھ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد محض 5 فیصد ہے جس میں ترک، بوسنیا اور کوسوو کے مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔
ریفرنڈم سے پہلے سوئٹزرلینڈ کی یونیورسٹی آف لوشرنے نے ایک سروے کیا تھا جس کے مطابق سوئٹزرلینڈ میں کوئی مسلمان خاتون برقعہ نہیں پہنتی۔ صرف 30 سے 150 خواتین ایسی ہیں جو نقاب کرتی ہیں۔
خلیجی ممالک سے آنے والی سیاح خواتین ہی زیادہ تر نقاب اور برقعہ پہنتی ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ریفرنڈم کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مذہب کو بنیاد بنا کر ان کی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ اس فیصلے سے معاشرے میں غیر ضروری تقسیم اور خوف و ہراس کی فضا پیدا ہو گی۔
سوئس پیپلز پارٹی کے رہنما والٹر ووبمن کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم ایک علامت ہے جس سے سوئس معاشرے میں غیر جمہوری اسلامی اقدار کی نفی کی گئی ہے کیونکہ سوئس معاشرے میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔