تحریر: سید علی عمران
ترکی اور پاکستان کے درمیان سفارتی، سماجی و تجارتی تعلقات میں مسلسل پختگی کا عمل جاری ہے۔ ان تعلقات میں نئی جہت تب دیکھی گئی جب وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنے پہلے خطاب کی سائیڈ لائین ملاقاتوں کے سلسلے میں ترکی و ملائشیا کے رہنماوٗں سے تفصیلی ملاقات کی اور اسلامی ممالک کی تنظیم کے غیر فعل کردار کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم پاکستان کی کوشش تھی کہ کشمیر کے مسلئے پر اسلامی ممالک اپنا کردار ادا کریں۔ ایسے میں ترکی اور ملائشیا کی جانب سے پاکستانی موقف کی خوب تائید کی گئی اور اسلامی ممالک کے مسائل کے حل کے لیے موجودہ اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کی بجائے ایک نئی تنظیم کے قیام کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اس حوالے سے ملائشیا میں باقاعدہ ایک اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد بھی کی گئی جس کی سعودی حکومت نے شدید مخالفت کی اور قرضوں میں جکڑی پاکستانی معیشت کو مجبور کر دیا گیا کہ اس کانفرنس میں حصہ نہ لیا جائے۔ ترکی اور ملائشیا کی مرتب کی گئی اس کانفرنس میں واحد ایٹمی اسلامی ریاست پاکستان کی عدم شرکت نے اس نئے اسلامی بلاک کے مستقبل پر کئی سوال کھڑے کر دیئے۔ مگر وقت ایک سا نہیں رہتا اور تب ہی دنیا پر ایک ایسے وائرس کا حملہ ہوا کہ دنیا کے طاقتور ممالک اس کے سامنے سر تسلیم خم ہوتے نظر آئے جبکہ دنیا کے سفارتی و تجارتی تعلقات میں ایک بھونچال آگیا۔
دنیا واضح طور پر دو بلاکس میں بٹتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے جس میں کچھ اسلامی ممالک امریکہ و اتحادی بشمول بھارت و اسرائیل کی طرف جھکتے نظر آرہے ہیں جبکہ دوسری طرف چین و روس اپنا علاقائی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ایک نئے بلاک کی پیشن گوئی دے رہے ہیں۔ یہ نیا بلاک چین کے عظیم الشان منصوبے ون بیلٹ ون روڈ سے جڑتے محسوس ہو رہیں ہیں جس کی شروعات 2015 میں چین پاکستان اقتصادی راہداری سے ہو چکی ہے۔ روس و ترکی کے تعلقات حالیہ دور میں کافی مضبوط ہوئے اور اب اقتصادی راہداری و پاکستان کے ساتھ ایک نئی اسلامی بلاک کی متوقع سربراہی نے ترکی کو چین کے بہت قریب کر دیا ہے۔ اس بلاک کو تقویت تب ملی جب چین نے بھارت کو لداخ پر بھرپور فوجی جواب دیا جبکہ امریکی پابندیوں کے بر خلاف ایران کے ساتھ آئندہ 25 سالوں میں تجارتی حجم کو 400 ارب ڈالر تک لے جانے کا عندیہ بھی دیا ۔ دوسری طرف اسرائیل کو تسلیم کرتے عرب ممالک نے نئے اسلامی بلاک کی اہمیت کو مزید اجاگر کر دیا ہے جبکہ آیا صوفیہ کی عمارت کو مسجد میں تبدیل کر کے صدر طیب اردگان نے اس وقت عالمی سطح پر مسلمانوں کے دل جیت لیے جب بہت بڑی مسلم آبادی مختلف ممالک میں مظالم کا شکار ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح سی پیک عالمی سطح پر چین کے اثرورسوخ کے لیے ضروری ہے اسی طرح واحد ایٹمی اسلامی ریاست نئے اسلامی بلاک کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس لیے جس طرح چین پاکستان کی اقتصادی ضروریات کو مدنظر رکھے ہوئے ہے اسی طرح ترکی و دیگر حواری اسلامی ممالک کو پاکستانی کی اقتصادیات کو بہتر بنانے میں کرادار ادا کرنا ہو گا۔
خلافت عثمانیہ کی بقا کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کا کرادار بہت اہم رہا۔یہی وہ مسلمان تھے کہ جن میں سے بیشتر بعد میں پاکستان کے قیام میں سرگرم رہے۔ ترکی و پاکستان کے تعلقات میں گرم جوشی سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں شدت اختیار کر گئی کیونکہ پرویز مشرف نئے ترکی کے بانی اتاترک سے شدید متاثر تھے۔ یہاں سے ترک پاکستان تعلقات کا ایک اہم باب شروع ہوتا ہے جبکہ موجودہ دور میں وزیراعظم عمران خان نے ان تعلقات کو ایک نیا رخ دیا جہاں ترکی و پاکستان میں سفارتی و قدیم ثقافتی وابستگی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ جس طرح بھٹو اور ماوزے تنگ پاک چین دوستی کی دو یادگار شخصیات تسلیم کی جاتی ہیں بالکل ایسے ہی پاک ترک تعلقات میں عمران خان و طیب ایردوان کے نام تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھے جائیں گے۔ ملکی سطح پر وزیراعظم عمران خان نے خلافت عثمانیہ کے ادوار پر مبنی ترکی ڈرامہ ارطغرل کی بہت تعریف کی اور اس کا اردو زبان میں ترجمہ کروا کر پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پر نشر کروایا تاکہ پاکستانی عوام مسلمانوں کی عظیم تاریخ سے روشناس ہو سکیں۔واضح رہے کہ اس ڈرامے کو صدر ایردوان نے خود مانیٹر کیا۔ مختلف زبانوں میں مترجم اس ڈرامے کے دیکھنے والوں کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان قربت کا ہی نتیجہ ہے کہ ترکی نے نہ صرف کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی تائید کی بلکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاسوں میں پاکستان کی بھرپور حمایت کی۔ دوسری طرف پاکستان اور چین کے مابین بھائی چارے کی عظیم مثال سی پیک میں ترکی کی بھرپور شمولیت کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں یہاں تک خبریں گردش کر رہی ہیں کہ چین یہ چاہتا ہے کہ ترکی اسلامی ممالک کی سربراہی کرے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ترکی ان سلامی ممالک کے ساتھ ایک نئی تنظیم کا خواہاں ہے جو اس خطے میں امریکی و سعودی اتحاد اور اس کے اثر و رسوخ سے نکلنا چاہتے ہیں۔ چین روس کے ساتھ ملکر ایک نئے عالمی بلاک اور ورلڈ آرڈر کی جستجو کرنا چاہتے ہیں۔
اسلامی ممالک کے نئے بلاک کی سربراہی کے لیے جہاں ترکی تاریخی، سفارتی و دفاعی اعتبار سے مضبوط ملک ہے وہیں اقتصادی سطح پر صدر طیب ایردوان ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ گیس کے ذخائر کی حالیہ دریافت نے ترکی کی ترقی کے نئے باب کھول دیئے ہیں۔ خطرناک کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانے اور ملکی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ترک حکومت نے کامیاب اقدامات اٹھائے۔ صدر رجب طیب اردگان اس عزم کا اظہار کیا کہ ترک معیشت رواں سال ہر کسی کو ششدر کر کے رکھ دینے والی ایک شرح نمو کے ساتھ پورا کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپ سمیت تمام تر دنیا میں سال 2020 کو ایک ایسے سال کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس میں صرف نقصان ہی ہوا ہے لیکن ترکی انشااللہ ہر کسی کو چونکا دینے والی شرح نمو سے ہمکنار ہو گا۔ اگر ہم ترک معیشت کے موجودہ حالات کا تفصیل سے مشاہدہ کریں تو معلوم ہو گا کہ اس کروناوائرس کے دباوٗ سے چند دن پہلے تک ترکی میں بے روزگاری کی شرح گذشتہ سال ماہ اپریل کے مہینے کے مقابلہ میں 0.2 فیصد پوائنٹس کی کمی سے 12.8 فیصد رہ گئی تھی۔ وائرس نے جہاں پوری دنیا کو متاثر کیا وہاں ترکی پر بھی اس کا اثر پڑا مگر ترک انتظامیہ نے وائرس پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ کاروباری سرگرمیوں پر توجہ دی اور اس کا ثمر اب منظر عام پر آنا شروع ہو گیا ہے۔ ترک ادارہ برائے شماریات نے سال رواں مئی کے صنعتی پیداواری انڈیکس کا اعلان کیا۔ جس کے تحت مئی کے مہینے میں صنعتی پیداواری انڈیکس اپریل کے مقابلے میں 17.4 فیصد بڑھ گیا۔ پیداواری صنعتی شعبے کے انڈیکس میں19.3 فیصد کان کنی اور سنگ کنی کے شعبے میں 4.5 فیصد اور بجلی،گیس اور ماحول دوست پیداواری شعبے کے انڈیکس میں4.9 فیصد کا اضافہ ہوا۔ جولائی میں ترکی کی برآمدات میں 15.8 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ماہ جون میں نارمل حالات کے ساتھ ہی ترکی نے عالمی تجارت اور یورپی یونین کے ساتھ اپنی تجارت میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا ہے۔
جہاں کرونا وائرس کی وجہ سے یورپی آٹو موبیل سیکٹر شدید متاثر ہوا وہاں ترکی نے اس سیکٹر میں تب بھی اپنے جھنڈے گاڑھے۔ یورپی آٹو موبیل پیداواری یونین ACEA کے اعداد و شمار کے مطابق یورپی یونین AB-26 اور یورپی آزاد تجارتی یونین EFTA کے رکن ممالک اور برطانیہ سمیت رواں سال کے پہلے 6 ماہ میں اجتماعی حیثیت سے آٹوموبیل کی مارکیٹ میں مندی کا سامنا رہا۔ یورپی آٹو موبیل مارکیٹ رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران 2019 کے اسی دورانیے کے مقابلے میں 38.9 فیصد مندی کے ساتھ 6 لاکھ 11 ہزار 918 عدد فروخت کی سطح تک گِر گئی۔ دوسری طرف ترکی رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں گاڑیوں کی فروخت میں 7 ویں نمبر پر تھا اور اس کامیابی کے بعد سال کے پہلے نصف میں چھٹے نمبر پر آگیا ہے۔ ترک وزیر ِ خزانہ بیرات البیراک کا کہنا ہے کہ ترکی سرمایہ کاروں کے لیے ایک جاذب نظر مرکز بننے کے عمل کو بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔انہوں نے کہا کہ ترکی نے "کسی سرمایہ کار کے لیے کاروبار شروع کرنے” کے معاملے میں متعدد ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں اہم سطح کا فاصلہ طے کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سال 2017 کے کام کاج شروع کرنے میں سہل انڈکس میں ترکی 190 ممالک میں 60 ویں نمبر پر تھا تو اب یہ 33ویں نمبر پر آگیا ہے۔ دوسری طرف انطالیہ فری زون دنیا بھر میں یاٹ کی تیاری کا ایک اہم مرکز بن چکا ہے۔ اس ضمن میں ترکی کو اٹلی، برطانیہ، امریکہ ، روس، ہالینڈ اور متحدہ عرب امارات سمیت متعدد ممالک سے آرڈر مل رہے ہیں۔ دنیا میں یاٹ کی تیاری میں اٹلی اور ہالینڈ کے بعد ترکی تیسرے نمبر پر آچکا ہے۔لیکن کمال بات یہ ہے کہ ترکی، اٹلی اور ہالینڈ میں بھی اپنے یاٹ فروخت کر رہا ہے ۔
ایک اور خبر کے مطابق امریکی ڈالر کے مقابلے میں شامی لیرا کی قدر میں کمی اور اتار چڑھاوٗ کی وجہ سے شام کے بعض علاقوں میں عوام خرید و فروخت کے لئے ترک لیرے کا استعمال کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بشار الاسد انتظامیہ کے ملک کی اقتصادی طاقت پر بڑے پیمانے پر حاوی رامی مالوف کو تحلیل کرنے کے بعد امریکہ کا اسد انتظامیہ کے خلاف لاگو کردہ "سیزر شامی سِول تحفظ قانون” انتظامیہ کی اقتصادیات کو منفی شکل میں متاثر کر رہا ہے۔ رواں سال کے آغاز میں ایک ڈالر 1000 شامی لیرے کے برابر تھا لیکن گذشتہ مہینے ایک ڈالر 4000 شامی لیرے کے برابر ہو گیا۔ ایک اور اہم خبر کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے اپنے شعبے اسٹریٹجی، پالیسی اور نظر ثانی کی سربراہی ترک معیشت دان جیلا پازار باشی اولو کے سپرد کر دی ہے جو عالم اسلام کے لیے بہت فخر اور پاکستان کے لیے اطمینان بخش بات ہے۔ یہاں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صدر طیب ایردوان کی سرپرستی میں ترکی نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن ہے بلکہ اس ساری محنت کے پیچھے عالم اسلام کی سربراہی کا بیڑا اٹھانے کی وہ جستجو ہے جو 100 سال پہلے خلافت عثمانیہ کے ٹوٹنے کی وجہ سے ختم ہو گئی تھی۔ اگر دیکھا جائے تو ترکی وہ مہذب و جدید اسلامی ریاست ہے جس پر چند عربی ممالک کو چھوڑ کر مسلم امہ اعتماد کا ووٹ دینے کو تیار ہے۔ یہاں تک کہ ایران و دیگر شیعہ ممالک جن کو او آئی سی میں نظر انداز کیا جاتا رہا وہ نئے اسلامی بلاک کا حصہ بننے کو بے تاب نظر آتے ہے جہاں فرقہ پرستی و سیلف انٹرسٹ کی بجائے یکجہتی ہو یگانگت کا دور دورہ ہو۔ مگر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس نئے بلاک کی کامیابی کا راز پاکستان اور سی پیک ہے۔
پاکستان ایک واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے اور اسکی فوج دنیا کی طاقت ور افواج میں سے ایک ہے ۔پاکستان چین کے عظیم منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کا سب سے پہلا شاہکار سی پیک کا سب سے اہم جز ہے جس کی افادیت کو بڑھانے کے لیے اسے ایرانی پورٹ چاہ بہار اور پھر آگے ترکی و شام تک پہنچانے کا منصوبہ ہے۔ اسی وجہ سے آجکل سی پیک مخالف سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ یہ وہ کڑی ہے جو نئے ورلڈ آرڈر کی بنیاد ہے۔ چین یہ جانتا ہے کہ پاکستان کو ہر صورت اقتصادی و معاشی لحاظ سے مضبوط ہونا ہو گا۔ اسی لیے چین نہ صرف اقتصادی بلکہ سفارتی محاذ پر پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہتا ہے۔ ترکی کو یہ چاہیے کہ عالمی اقتصادیات میں پاکستان کو اپنے ساتھ لے کر چلے۔ پاکستان میں کرپشن اور مافیا کی وجہ سے اندرونی خلفشار برپا ہے جس کی وجہ سے معاشی محاذ پر پاکستان بہت پیچھے ہے۔ ایسے میں ترکی پاکستانی معیشت کو تجارتی سطح پر اگر سپورٹ کرتا ہے تو پاکستان فوجی اعتبار کے ساتھ ساتھ معاشی میدان میں بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو گا۔ قرضوں میں جکڑی معیشت کو خود اعتمادی کے ساتھ فیصلہ کرنے سے روکتی ہے جبکہ خود انحصار ملک اپنے فیصلے خود اپنی مرضی سے کر سکتا ہے۔ مضبوط و منظم اسلامی ممالک کا اتحاد دنیا میں پستے مسلمانوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے اور موجودہ دور میں اس اتحاد کا رکھوالا پاکستان کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
مصنف کارپوریٹ بینکار اور بزنس کالمسٹ ہیں