جیسے جیسے ٹیکانولجی دن دگنی رات چگنی ترقی کرکے انسان کی زندگی کو ہر نئے اُگتے سورج کے ساتھ خوبصورت بنا رہی ہے ویسے ہی دوسری طرف کہیں نہ کہیں اسکے مضحر اثرات انسانی زندگی پر مرتب ہو رہے ہے۔انسان ہر نئے دن کے ساتھ اسی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ وہ کیسے ٹیکانولوجی کے میدان میں بازی لے جائے اور اپنی سوچ کا ایک نیا عجوبہ دنیا کے سامنے لا کھڑا کرے۔ بس اسی آگے سے آگے بڑھنے کی لالچ میں انسان اپنے ہی نقصان کی طرف گامزن گاڑی میں سوار ہوچکا ہے جسکی کوئی منزل نہیں صرف کبھی نہ ختم ہونے والا ایک طویل سفر ہے۔
ٹیکنالوجی کی ایک تخلیق جسے سمارٹ واچ کے نام سے جانا جاتا ہے کچھ عرصے سے ماڈرن لائف سٹائل کا ایک حصہ بن چکی ہے۔اس میں موجود فیچرزانسان کی زندگی کو آسان بنانے میں کارآمد ثابت ہورہے ہیں جیسے کب کس وقت آپ نے کیا کام کرنا ہے اس کا سکیجول، موبائل میں موجود ڈیٹا تک بلیو ٹوتھ کے ذریعہ رسائی حاصل کرنا اور بھی بہت سے نت نئے فیچر اس میں وقت کے ساتھ ساتھ شامل ہوتے جارہے ہیں۔ مگر اسکے ساتھ ساتھ ہی جیسے یہ ایجادیں انسان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کررہی ہیں وہیں دوسری طرف کچھ لوگ اسکا غلط استعمال کرکے انسانیت کو تباہ کر رہے ہیں۔
آجکل سمارٹ واچ میں موجود سافٹ ویر آسانی سے ہیک ہو جاتا ہے اور ہیکرز اسے لوگوں کو نقصان پہچانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
برطانیہ کے سیکوڑٹی محقیقین کا کہنا ہے کہ بزرگ مریضوں کی مدد کے لیے استعمال ہونے والی سمارٹ واچ کا سافٹ ویر باآسانی ہیک کیا جا سکتا ہے اور لوگوں کے خلاف اسکا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔جیسے کہ کچھ ہیکر ڈیمینشیاء کہ مریضوں کو اپنا نشانہ بنا کر انہیں بار بار دوائی لینے کے لیے مسیج بھیجتے ہیں جبکہ دوائی کی زیادہ مقدار مریضوں کے لیے نقصان دے ثابت ہو سکتی ہے۔
محقیقین کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے چینی کمپنی کو اس مسئلے کی اطلاع دی ہےتاکہ وہ اسکا کوئی حل نکال سکیں۔تاہم اس ایپ کے سافٹ ویر کو ڈاونلوڈ کرنے والوں کی تعداد 10 ملین سے بھی زیادہ ہے اور یہ جاننے کا ابھی کوئی ایسا طریقہ نہیں جس سے یہ پتا لگ سکے کہ سافٹ ویر میں کوئی وائرس ہے یا نہیں۔
اس نقص کا پتہ برطانیہ میں قائم سیکیورٹی فرم قلم ٹیسٹ کے شراکت داروں نے لگایا اور اس کے ذریعہ ہونے والے نقصان سے آگاہ کیا اور بتایا کہ یہ مسئلہ زیادہ تر سستی گھڑیوں میں پایا جا رہا ہے۔
قلم ٹیسٹ کے کین منرو کا کہنا ہے کہ سافٹ ویر کو ہیک کرکے ہم گھڑی پہننے والے انسان کی زندگی کو ہیک کر سکتے ہیں وہ کب کیا کرتا ہے کس سے بات کرتا ہے صرف ایک کلک سے ہمارے پاس آسکتا ہے ہم انکو جانے بغیر انکی سب حرکات پر نظر رکھ سکتے بلکہ انہیں بار بار دوائی لینے پر متنبہ بھی کر سکتے ہیں۔
دوسری طرف کمپنی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر سافٹ ویر کو سہی طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ہیکینگ مفید ثابت ہو سکتی ہے جیسے ڈیمینشیاء کا مریض اگر کہیں کھو جائے تو گھڑی کے ذریعہ باآسانی اسکا پتا لگایا جا سکتا ہے۔
محقیقین نے اپنی ایک بلاگ پوسٹ میں کہا کہ ہیکنگ کی کچھ مہارت رکھنے والے لوگ بآسانی سمارٹ واچ کا دیٹا ہیک کر سکتے ہیں اور ڈیمنشیاء کے مریض جن میں اتنی یاد رکھنے کی طاقت نہیں ہوتی کہ کب انہوں نے دوائی لی تھی انہیں باآسانی اپنا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
چین میں مقیم ایک صعنت کار کا کہنا تھا کہ ہیکینگ اب بہت عام ہوتی جا رہی ہے نوجوان نسل ہیکنگ کے ذریعہ غلط کاموں میں پڑ رہی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو لیگو سے کھیلنے تو دیتے ہیں مگر اصلی عمارت بنانے کی اجازت نہیں دیتے لیکن سافٹ ویر کو ہر دوسرا نوجان اپنے مزے کے لیے استعمال کرسکتا ہے جو آنے والے وقت میں ایک نئے خطرے کی شکل میں سامنے آسکتا ہے۔