سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے کہا ہے کہ وہ سات دن کے اندر جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کی اہلیہ اور بچوں کو نوٹس جاری کرے جس میں ان سے برطانیہ میں جائیداد سے متعلق تمام ثبوت طلب کئے جائیں۔
عدالت نے قاضی عیسیٰ فائز کے خلاف صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خط سے متعلق ریفرنس بھی خارج کردیا۔ 10 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے مختصر فیصلے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے کہا ہے کہ وہ 60 دن کے اندر مکمل تفتیشی رپورٹ عدالت کے روبرو جمع کرائے اور اپنی تحقیقات 15 دن کے اندر مکمل کرے۔ ریونیو بورڈ کے ان لینڈ کمشنر سے کہا گیا ہے کہ وہ جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کی اہلیہ اور بچوں کو نوٹس جاری کرنے کے سات دن کے اندر اپنی رپورٹ جمع کرائیں۔
بورڈ آف ریونیو اپنی رپورٹ چیئرمین سپریم جیوڈیشل کونسل چیف جسٹس گلزار احمد کو جمع کرائیں جس کے بعد وہ خود اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ یہ رپورٹ جیوڈیشل کونسل میں کب بھیجی جائے گی۔
فیصلے میں تین ججوں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ نے اضافی نوٹ لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کو ہر قیمت پر تحفظ دینا ہو گا۔ جسٹس قاضی عیسیٰ فائز یا کوئی دوسرا جج، کوئی فرد اور ادارہ قانون سے بالا تر نہیں ہے۔ جسٹس یحیٰ آفریدی نے فیصلے میں لکھا کہ پٹیشن قابل سماعت نہیں تھی۔ قاضی عیسیٰ فائز کے وکیل منیر اے ملک نے فیصلے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ان کے موقف کو درست مانا کیونکہ ریفرنس میں ذاتی عناد اور ثبوتوں کی کمی تھی۔ ایسٹس ریکوری یونٹ کو کسی بھی صورت میں قانونی ادارہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔