انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق میانمار میں حالیہ فوجی بغاوت کے بعد سے 183 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
امدادی ایسوسی ایشن برائے سیاسی قیدیوں (اے اے پی پی) نے رپورٹ میں بتایا کہ میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد سے ہلاکتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
اب تک 2 ہزار 175 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے یا ان پر الزام عائد کیا گیا یا سزا سنا دی گئی ہے۔ تاہم زیادہ تر متاثرین بغاوت کے خلاف مظاہرین تھے البتہ رپورٹ میں مظاہروں کا حصہ نا بننے والوں کی ہلاکتوں کی بھی نشاندہی ہوئی ہے ۔
رپورٹ کے مطابق جنٹا فورسز نے پورے ملک میں موبائل انٹرنیٹ سروسز اور کچھ علاقوں میں بجلی بھی معطل کر دی ہے۔ جس کا مقصد مظاہرین کے آپس میں رابطے کو کمزور کرنا ہے۔
اے اے پی پی کے مطابق آن لائن مواصلات کے بغیر رات کی تاریکی میں انسانی حقوق کی پامالیاں مزید سنگین ہو جائیں گی۔
یکم فروری کو جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کی برطرفی کے بعد میانمار میں عوام فوجی بغاوت کے خلاف سڑکوں پر آگئے جس سے ملک میں افراتفری کا عالم ہے۔
عوام کا مطالبہ ہے کہ جمہوری حکومت ہی اقتدار سنبھالے جس کے لیے ملک گیر احتجاج جاری ہیں۔ جبکہ فوج کی جانب سے احتجاج میں شریک افراد پر آنسو گیس، ربڑ کی گولیوں اور واٹر کینن کے ذریعے تشدد کیا جا رہا ہے۔