
تحریر: محمد عبد الشکور
6فروری کی جس شام زلزلہ زدہ علاقے کی خبر گیری کے لئے، میں الخدمت کی ہدایت پر استنبول کی فلائٹ لینے کی تیاری کر رہا تھا، مجھے فرخ سہیل گوئندی صاحب کا وائس میسیج ملا۔
“ مجھے پتہ چلا ہے آپ ترکیہ کے زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے جا رہے ہیں، ہمیں مصیبت کی اس گھڑی میں ترک بھائیوں کی ضرور اور بھر پور مدد کرنی چاہئے ، مگر آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ترکیہ کے ساتھ ساتھ ہمیں زلزلہ زدہ شامی بھائیوں کو بھی کسی صورت نہیں بھولنا ہے ۔ اُن کے پاس نہ تو ریاست ہے، نہ سماج کا ڈھانچہ اور نہ ہی ترکیہ جیسے مادی وسائل”
پتہ نہیں کیوں، سارے سفر میں یہ جملہ مسلسل میرے کانوں میں گونجتا رہا اور میرا تعاقب کرتا رہا۔ زلزلے کا مرکز غازی انتیب کا صوبہ تھا جو ترکیہ اور شام کے عین بارڈر پر واقع ہے۔استنبول پہنچنے کے بعد، پہلی ممکنہ فلائٹ سے میں الخدمت کے قافلہ کے ساتھ رات گیارہ بجے غازی انتیپ ائیر پورٹ پہنچا۔حیرات فاؤنڈیشن ہماری میزبان تھی۔ ہم صبح سویرے گاڑی کے ذریعے تباہ حال علاقے کی طرف روانہ ہوگئے۔ آٹھ آٹھ، دس دس منزلہ عمارتیں پِچک کر سینڈ وِچ بن چکی تھیں۔ نہ جانے کتنے انسان تہہ در تہہ ملبے میں دب کر اپنے خالقِ حقیقی کے پاس پہنچ چکے ہونگے۔ غازی انتیہ پہنچ کر معلوم ہوا الخدمت کا 47 افراد پر مشتمل ایک دوسرا قافلہ، جسے آفاد (AFAD)ترکیہ نے خود پاکستان سے منتخب کر کے سرچ اور ریسکیو کے لئے بلایا ہے، وہ بھی آفت زدہ علاقے میں پہنچ چکا ہے اور وہ شہری انتظامیہ اور ریسکیو ورکرز کے ہمراہ زندہ یا مُردہ انسانوں کو ملبے سے باہر نکالنے میں مہارت اور سرُعت سے مصروفِ کار ہو چکا ہے۔ ہم نور داغ شہر پہنچے، پنتیس سے چالیس ہزار کی اس آبادی میں شاید ہی کوئی گھر رہنے کے قابل بچا ہو گا۔ یہ بات اطمینان کا باعث تھی کہ ترکیہ کے اس علاقے میں سرچ اورریسکیو کا کام بے ہنگم نہیں ، بلکہ ہر جگہ بہت منظم انداز میں شہری انتظامیہ مستعد ہے اور کافی مقدار میں مشینری اور افرادی قوت متحرک و موجود ہے۔
الحمد للہ پاک آرمی اور ریسکیو 1122 کے دستے بھی اپنے ترک بھائیوں کے شانہ نشانہ مصروف و متحرک ہو چکے تھے۔
ملکِ شام کا زلزلہ زدہ علاقہ ساٹھ لاکھ(چھ ملین) انسانوں پرمشتمل ہے اور اس علاقے کا بڑا شہر اِدلِب ہے۔ یہاں بھی زلزلے کی تباہ کاریوں کے باعث ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں اور سینکڑوں عمارتیں زمیں بوس۔ مگر چونکہ یہ علاقہ شام کی مرکزی حکومت کے تابع نہیں، اس لئے یہاں نہ تو شامی حکومت اور نہ ہی بین الاقوامی مدد پہنچ پا رہی ہے۔ صرف ترکیہ بارڈر سے امدادی قافلے آ جا سکتے ہیں اور ترکیہ چونکہ خود زلزلے کی اعصاب شکن کیفیت سے گزر رہا ہے اس لئے شامیوں کی طرف پوری طرح توجہ نہیں ہو پا رہی۔
جوں جوں اِدلِب اور گرد و نواح کی تباہی اور بے بسی کی خبریں سینہ بسینہ پھیل رہی تھیں میری بیقراری بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ میں جلدی اِدلِب کیوں پہنچ نہیں پا رہا؟ مشکل کی اس گھڑی میں شامی بھائیوں کی تنہائی اور اکیلا پن مجھے کھائے جا رہا تھا۔
میں خود اپنے آپ سے ہم کلام تھا۔
قیس اِدلِب میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
ساتھیوں کے ہمراہ بالآخر میں 12 فروری سوموارکو جب اِدلِب پہنچا تو حالات اُس سے کہیں زیادہ ابتر نظر آئے جتنے میں سوچ کر آیا تھا۔ اکثر مقامات پر تباہ شدہ عمارات کا ملبہ لوگ اپنے ہاتھوں اور ہتھوڑوں سے ہٹانے میں مصروف تھے، تاکہ اپنے پیاروں کی نعشیں ملبے کے نیچے سے نکال سکیں ۔ بہت کم جگہوں پہ کرین نظر آئے۔ ایک سکول بلڈنگ جس کے نیچے اٹھائیس معصوم بچے دب کر شہید ہو چکے تھے، لوگوں کی بے بسی کی عجب تصویر پیش کر رہی تھی۔
اِدلِب میں سیدھا شہر کے مرکزی ہسپتال پہنچا تاکہ زخمیوں کی حالت زار دیکھ سکوں۔ ہسپتال کے ایم ایس نے ہمیں دیکھا تو اپنے آنسو نہ روک سکا، شاید یہ خوشی کے آنسو ہوں۔ دیر سے ہی سہی مگر کوئی تو پرُسے کے لئے آیا۔
ایم ایس صاحب ہمیں زلزلے کے زخمیوں کے پاس لے کر آئے۔ اُن کےزخموں پہ کچھ پٹیاں بندھی تھیں اور بس۔ شاید ہسپتال کے پاس انہیں دینے کو کچھ اور تھا ہی نہیں۔ساتھ والے کمرے میں کِڈنی کے کچھ مریض تھے، جنہیں ڈائلیسز کی ضرورت تھے۔ مگر ہسپتال کے پاس تو ڈائلیسز کی مشینیں ہی نہ تھیں۔ ایک ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں سے ڈھلکنے والے آنسو ان کی داڑھی کو بھِگو رہے تھے۔ میں ندامت میں ڈوبا، پاس کھڑا خود سے گُنگُنانے لگا۔
دیر لگی تمہیں آنے میں، پَر شُکر ہے پھر بھی آئے تو
کچھ زیادہ سوچے بِنا میں نے آہستہ سے کہا “ سر الخدمت یہ ڈائیلیسزمشین آپ کےہسپتال کو عطیہ کرنے جارہی ہے۔جلد یہ سسٹم آپ تک پہنچ چائے گا ان شاءاللہ”
میں ڈاکٹر نہیں، نہ ڈائیلسز کےاس نظام کی قیمت کا مجھے کچھ اندازہ ہے۔تاہم مجھے امید اور اعتماد ہے کہ اس سسٹم کے حصول میں میرا رب الخدمت کے احباب کے ذریعے اس کام کی تکمیل میں مدد فرما دے گا۔
اِدلِب کے مضافات میں بلڈنگ کے ملبے پر بیٹھی نو سالہ ایک بچی کی ویڈیو نے تو دیکھنے والوں کے دل چیر کے رکھ دئے۔ اس معصوم کے سارے بہن بھائی اور والدین ملبے میں دب کر شہید ہوچکے تھے۔ کسی خدا ترس رضاکار نے آگے بڑھ کراسے کھانے کا ایک پیکٹ دیا۔ معصوم بچی یہ پیکٹ اسے لوٹاتے ہوئے کہہ رہی تھی “ کھانا نہیں، مجھے میری ماں کہیں سے ڈھونڈ کر لا دو”
زلزلہ زدہ علاقے کے ان شامی بہن بھائیوں کو نہ حکومت کی سرپرستی میسر ہے نہ میڈیا کی کوریج ،مگر وہ پھر بھی زندہ رہنے پہ بضد ہیں۔