turky-urdu-logo

یہ مجھے مارنا چاہتے ہیں، مجھے سانس نہیں آ رہی، جارج فلائیڈ کے آخری الفاظ

امریکی ریاست مینیاپولیس میں 25 مئی کو پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے سیاہ فام جارج فلائیڈ کے کیس کی سماعت مقامی عدالت میں ہوئی۔ سماعت کے دوران پولیس آفیسر کے ساتھ لگے ہوئے کیمرے کی فوٹیج اور بات چیت کی ٹرانسکرپشن عدالت میں پیش کی گئی۔

جارج فلائیڈ نے 20 بار پولیس آفیسر کو بتایا کہ اس کو سانس نہیں آ رہی ہے لیکن پولیس آفیسر نے اس کی بات کی طرف دھیان دینے کے بجائے کہا کہ آکسیجن لینے کیلئے اس کے پاس کافی ذرائع ہیں۔

عدالت میں جمع کرائی گئی ٹرانسکرپشن کے مطابق جارج فلائیڈ کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ مجھے اپنی مرحومہ والدہ بہت یاد آ رہی ہے۔ اس نے کہا کہ ماں میرے بچوں کو بتانا کہ میں ان سے کتنا پیار کرتا ہوں۔ وہ بار بار پولیس آفیسر سے التجا کرتا رہا کہ اس کی گردن سے گھٹنے کو ہٹا لے کیونکہ اسے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے لیکن پولیس آفیسر نے 20 منٹ تک جارج فلائیڈ کو اپنے گھٹنے کے نیچے دبا کر رکھا جس کے باعث اس کی موت ہو گئی۔

عدالت میں پولیس آفیسر کے خلاف تیسرے اور چوتھے درجے کے قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ اس کے دو ساتھیوں پر بھی قتل میں مدد فراہم کرنے اور جارج فلائیڈ کو کسی طرح کی امداد فراہم نہ کرنے کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔

واضح رہے کہ جارج فلائیڈ کے قتل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد امریکہ سمیت دنیا بھر میں پولیس گردی کے خلاف پُرتشدد احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔ بلیک لائیوز میٹر (سیاہ فاموں کی زندگی اہمیت رکھتی ہے) کے نام سے ایک تحریک شروع ہوئی جس کے بعد اب امریکہ میں پولیس سے متعلق نئی اصلاحات پر کام شروع ہو گیا ہے۔ اب پولیس کو کسی بھی مشتبہ شخص کو زمین پر اوندھے منہ گرا کر اس کی گردن پر گھٹنہ رکھنے جیسے غیر انسانی سلوک کو ختم کرنے کا نیا قانون بن رہا ہے۔ دوسری طرف کاسٹمیٹکس تیار کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھی اپنی مصنوعات پر رنگ گورا کرنے اور فیئر کلر جیسے الفاظ ہٹا دیئے ہیں۔

Read Previous

طویل انتظار کے بعد ارطغرل غازی کی اسکرین پر واپسی

Read Next

امریکہ کا قبرص کو فوجی تربیتی پروگرام میں شامل کرنے پر ترکی کا احتجاج

Leave a Reply