turky-urdu-logo

لوگ کسی بیماری کی علامت ظاہر نہ ہونے کے باوجود فوری جاں بحق ہو رہے ہیں، طبی ماہرین

کراچی کے مختلف سرکاری اور نجی اسپتالوں کی ایمرجنسی میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ایسے کئی مریض اسپتال لائے جا رہے ہیں جو یا تو مردہ حالت میں اسپتال پہنچتے ہیں یا اسپتال پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ہی دوران علاج زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔ طبی ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کئی لوگوں میں کسی طرح کی بیماری کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہو رہی ہے اور وہ اچانک جاں بحق ہو رہے ہیں۔ یہ ایک تشویشناک بات ہے جس پر ریسرچ کی ضرورت ہے۔

گزشتہ ہفتے جب ایک 35 سالہ خاتون کو مردہ حالت میں کراچی کے جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں لایا گیا تو ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ ان کی لاش لواحقین کے حوالے کرنے سے پہلے ان کا چیسٹ ایکسرے کروا لیا جائے۔

چیسٹ ایکسرے دیکھتے ہی ڈاکٹروں کے بدترین خدشات کی تصدیق ہوگئی کیونکہ ماہرین امراض سینہ نے ایکسرے دیکھتے ہی کہا کہ بظاہر اس خاتون کی موت کی وجہ نمونیا یا کورونا ہو سکتا ہے۔ 

اس واقعے کے بعد جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ ہر مشتبہ لاش کا چیسٹ ایکسرے کروائیں گے اور گزشتہ چند دنوں میں اسپتال کی ایمرجنسی میں مردہ حالت لائے گئے کئی افراد کے ایکسرے کروانے سے پتہ چلا کہ ان کے پھیپھڑوں میں پانی بھرا ہوا تھا۔

جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں موجود ایک ڈاکٹر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ “میں گزشتہ کئی سالوں سے جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں ڈیوٹی کر رہا ہوں اور میں نے مردہ حالت میں لائے گئے سینکڑوں افراد کو دیکھا ہے ۔ کئی لوگ دوران علاج انتقال کر جاتے ہیں لیکن ان اموات کی وجوہات مختلف نوعیت کے حادثات، گولی لگنا یا دیگر حادثات جن میں جلنا اور زہر خوانی ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ دو ہفتوں سے حادثات میں نمایاں کمی ہوئی ہے لیکن ہر روز 15 سے 20 افراد یا تو مردہ لائے جارہے ہیں یا پھر آتے ہی مر جاتے ہیں۔ ان افراد میں 99 فیصد لوگ بیماری کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ ہمارے ماہرین کا خیال ہے کہ ان افراد کی موت کی وجہ جاننے کی انتہائی سخت ضرورت ہے”۔

جناح اسپتال کی انتظامیہ کے مطابق 31 مارچ 2020 سے لے کر 13 اپریل 2020 تک جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں 109 افراد مردہ حالت میں لائے گئے۔

اسی طرح 90 افراد ایسے تھے جو کہ قریب المرگ تھے اور وہ دوران علاج ایک گھنٹے کے اندر اندر جاں بحق ہوگئے۔

جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کے مطابق ایسے زیادہ تر افراد کی عمریں 45 سے لے کر 60 سال تھیں جب کہ چند افراد 35 سال تک کے بھی تھے اور چند ایک 80 سال سے زائد عمر کے بھی تھے۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ 60 سال سے کم عمر کے افراد خاص طور پر 45 سے لے کر 55 سال تک کی عمر کے افراد کا اسپتال لانے کے چند گھنٹوں میں ہی مر جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کسی بیماری یا بیماریوں کے شدید حملے کا شکار تھے اور ان کا علاج نہیں ہو رہا تھا۔

ایمرجنسی میڈیسن کے ایک اور ڈاکٹر نے بتایا کہ”ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ سب لوگ کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے نمونیا سے مر رہے ہیں۔ ان میں کئی کے گردے فیل ہونے، جگر خراب ہونے اور دل کی بیماریوں سے بھی مر رہے ہوں گے لیکن ہمیں ان تمام افراد کی وجہ موت جاننے کی ضرورت ہے”۔

ایمرجنسی میڈیسن کے ماہرین کے مطابق بیماریوں کی وجہ سے جاں بحق اور قریب المرگ افراد کی اتنی بڑی تعداد میں اسپتالوں میں آمد سے لگتا ہے کہ لوگوں کو اسپتال پہنچنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی مریضوں کو اپنے امراض کی شدت کا یا تو اندازہ نہیں ہو پارہا یا پھر وہ ایسی بیماری میں مبتلا ہو رہے ہیں جو کہ جھٹ پٹ ان کی جانیں لے رہی ہے ۔

کراچی کے کئی دیگر اسپتالوں سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کی انتظامیہ نے ڈیٹا دینے سے انکار کردیا لیکن ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹس میں کام کرنے والے کئی ماہرین نے بتایا کہ ان کے پاس بھی ایسے مریضوں کی آمد ہورہی ہے جو کہ یا تو شدید بیماری کی وجہ سے مر چکے ہوتے ہیں یا پھر ان کی حالت انتہائی تشویشناک ہوتی ہے اور وہ دوران علاج مر جاتے ہیں۔

انڈس اسپتال میں کام کرنے والے ایک سینئر ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو ہفتوں سے سانس کی تکلیف اور پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا افراد کی آمد کافی بڑھ چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کی ایمرجنسی میں صرف 22 بیڈ ہیں اس لیے وہ ایسے مریضوں کو جناح یا سول اسپتال ریفر کر دیتے ہیں۔

سول اسپتال کی ایمرجنسی میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ روزانہ تین سے چار افراد کسی شدید بیماری یا بیماریوں کی وجہ سے سے جاں بحق ہو جاتے ہیں جن کی لاشیں سول ہسپتال کی ایمرجنسی میں لائی جارہی ہیں جب کہ چند لوگ ایسے بھی روزانہ لائے جاتے ہیں جو کہ دوران علاج جاں بحق ہو جاتے ہیں۔

اسپتالوں کی ایمرجنسی میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ جیسے ہی کوئی شخص مردہ حالت میں لایا جاتا ہے یا آتے ہی جاں بحق ہو جاتا ہے اس کی لاش کو بغیر کسی مزید جانچ پڑتال کے لواحقین کے حوالے کردیا جاتا ہے۔

ایک ہسپتال کے سربراہ نے بتایا کہ “ہمارے ملک میں موت کے بعد موت کی وجوہات جاننے کی روایت ہی نہیں ہے۔ لواحقین پوسٹ مارٹم کروانے سے انکار کردیتے ہیں اور اگر کوئی شخص بیماری کی وجہ سے جاں بحق ہوا ہے تو لواحقین چاہتے ہیں کہ لاش جلد سے جلد ان کے حوالے کر دی جائے”۔

کراچی کے دیگر پرائیوٹ اسپتالوں میں موجود چند ماہرین کا کہنا تھا کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ لوگ کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے نمونیا سے مررہے ہیں یا پھر دیگر بیماریاں بشمول کینسر، جگر اور گردوں کا فیل ہونا اور دل کے امراض بھی ان اموات کی وجوہات میں شامل ہوسکتی ہیں۔

Read Previous

صدر ٹرمپ عالمی ادارہ صحت سے ناراض، فنڈنگ فوری روکنے کا حکم

Read Next

کورونا وائرس پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا کردار مناسب نہیں رہا، تُرک وزیر خارجہ

Leave a Reply