پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے لانگ مارچ کے دوران فائرنگ سے زخمی ہونے کے بعد پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو ملک میں عادت ہوگئی تھی کہ سازش کے تحت فیصلے کر کے تبدیلی لاتی تھی اور ہماری اپنی ایجنسیاں جمہوری عمل کو چلنے نہیں دی رہی ہیں۔
شوکت خانم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ مجھے 4 گولیاں لگی ہیں اور ڈاکٹر فیصل سلطان سے کہا کہ تفصیلات سے آگاہ کریں اور انہوں نے ایکسرے کے ذریعے میڈیا کو تفصیلات بتادیں۔
عمران خان نے کہا کہ لانگ مارچ میں روانہ ہونے سے ایک دن پہلے پتا چلا تھا کہ انہوں نے وزیرآباد یا گجرات میں مجھے مارنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
پریس کانفرنس میں عمران خان سازش کے حوالے سے اپنا مؤقف دہرایا اور کہا کہ امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو نے دھمکی دی کہ عمران خان کو ہٹا دیں اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت گرادی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے لوگ ووٹ اس لیے دیتے ہیں کہ لوگ ان سے تنگ تھے اور اس کے بعد وہی اسٹیبلشمنٹ فیصلہ کرتی ہے کہ اب تبدیلی کا وقت آگیا ہے اور وہ ان کو واپس لے آتی ہے اور یہی سازش ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک بیرونی اور ایک اندرونی سازش ہوتی ہے اور کہتے ہیں ہم نیوٹرل ہوگئے ہیں، نیوٹرل کا کوئی بھی مطلب لیں، انہیں پتا تھا سازش ہو رہی تھی لیکن راستہ نہیں روکا۔
عمران خان نے کہا کہ اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ کو عادت پڑگئی تھی کہ جہاں وہ دھکیلیں گے لوگ وہاں چلے جائیں گے، جب وہ تبدیلی لے کر آتے ہیں مٹھائیاں بٹتی ہیں، اسٹیبلشمنٹ کو یہ عادت تھی، ان کو ایک دھچکا پڑا کہ پاکستانی قوم نے فیصلہ کیا 30 سال سے جو چوری کر رہے ہیں ان کے ساتھ نہیں جانا چاہتے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2015 میں دھاندلی پر بیٹھنے والے جوڈیشل کمیشن نے واضح کیا تھا کہ ای وی ایم لائیں گے تو 90 فیصد دھاندلی ختم ہوجاتی لیکن انہوں جان کر آنے نہیں دیا، الیکشن کمیشن نے روکا، ان دونوں جماعتوں اور ہینڈلرز نے مخالفت کی کیونکہ اس کے بعد الیکشن میں ردوبدل نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود تحریک انصاف جیت جاتی ہے، پھر سمجھ نہیں پڑے کہ قوم کہاں کھڑی ہے، اس کے بعد مزید اور دباؤ، دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
‘اسلام آباد میں ایک ہینڈلر آیا اور سختیاں شروع ہوئیں’
عمران خان نے کہا کہ ‘اس کے بعد تبدیلی ہوتی ہے اور اسلام آباد میں ایک ہینڈلر آتا ہے، وہ کہہ کر آتا ہے کہ میں تمہیں بتاؤں گا کہ کیسے سیدھا کرتا ہوں، پھر اور سختیاں شروع ہوجاتی ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘جو صحافی تحریک انصاف کور کر رہا ہے، اس کے لیے سختی، جو صحافی پی ٹی آئی کو فیور کر رہا ہے اس پر سختی شروع ہوجاتی ہے، ہمارے اراکین سے رابطے کیے جاتے ہیں، ڈرایا دھمکایا جارہا عمران خان کو چھوڑیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے اراکین اسمبلی کو ڈرایا جاتا ہے کہ ہمارے پاس تمہارے کرپشن کیسز ہیں، وہ نہیں مل رہا ہو تو تمہاری گندی ویڈیوز ہیں، یہ تماشا ہو رہا ہے پاکستان میں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ ہماری اپنی ایجنسیاں جمہوری عمل کو چلنے نہیں دی رہی ہیں اور یہ استعمال کر رہی ہیں غلطی کا احساس کرنے کے بجائے غلطی کو دہراتے جارہے ہیں اور لوگوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں’۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ‘پھر الیکشن کمیشن کو استعمال کیا جارہا ہے کسی طرح عمران خان کو نااہل کریں، فارن فنڈنگ کیس پر حالانکہ پتا چلا کوئی فارن فنڈنگ نہیں ہے اور وہ ممنوعہ فنڈنگ ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ممنوعہ فنڈنگ پر پارٹی نااہل نہیں ہوسکتی تھی تو وہاں سے تبدیل کرکے توشہ خانہ پر آگئے، توشہ خانہ کا سارا ریکارڈ توشہ خانہ میں پڑا ہوا ہے۔
‘مشرف کا مارشل لا لبرل تھااس کے مقابلے میں’
عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘جب سے آئے ہیں انہوں نے صحافیوں سے کیا کیا، مشرف کا مارشل مجھے یاد ہے، مشرف کا مارشل لا لبرل تھا، اس کے مقابلے میں جو آج کل تھا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جنہوں نے ارشد شریف کو قتل کیا قوم نہیں معاف نہیں کرے گی، مجھے پتا ہے ان کے پیچھے کون پڑا ہوا تھا، ارشد شریف کے گھر والوں اور صحافیوں کو پتا ہے کہ اس کے پیچھے کون پڑا ہوا تھا کہ اس کو ملک چھوڑ کر باہر جانا پڑا اور دبئی سے کینیا جانا پڑا’۔
انہوں نے کہا کہ آج کون فیورٹ بنے ہوئے ہیں، لفافے، جو ضمیر بیچنے والے صحافی ہیں، جن کی کریڈیبلٹی نہیں ہے۔
‘4 لوگوں نے سلمان تاثیر طرز کے قتل کا منصوبہ بنایا’
عمران خان نے کہا کہ ‘جب انہوں نے دیکھا کہ ریکارڈ جلسے ہوئے تو فیصلہ کیا، مجھے مارنے کا فیصلہ پہلے کیا، 4 لوگوں نے بند کمرے میں مجھے مارنے کا فیصلہ کیا اور میں نے ٹی وی پر جا کر لوگوں کو بتایا، ویڈیو بنائی اور 4 لوگوں کے نام دیے اور ویڈیو باہر رکھی ہوئی ہے، اگر مجھے کچھ ہوا تو یہ ویڈیو ریلیز کریں تاکہ دنیا اور قوم کو پتا ہو کہ کس نے یہ کیا کیونکہ یہاں جو قتل ہوتا ہے تو پتا نہیں چلتا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘مجھے خبریں کہاں سے آتی ہیں، ایک تو حکومت میں ساڑھے تین سال رہا ہوں، میرے تعلقات ہیں، اداروں کے اندر لوگوں کو جانتا ہوں، ایجنسیوں کے اندر لوگوں کو میں جانتا ہوں، سارے اداروں کے اندر بھاری اکثریت جو پاکستان کے ساتھ ہورہا ہے، اس پر متنفر ہیں اور 6 مہینوں میں انہوں نے پاکستان کے ساتھ جو کیا ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، معیشت نیچے جا رہی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘انہوں نے دوسری سازش کی اور فیصلہ کی کہ عمران خان کا سلمان تاثیر طرز کا قتل کرو، پہلے کہوں اس نے مذہب کی توہین کی ہے یا توہین رسالت کی ہے، اس پر ٹیپس بھی بنائیں اور ریلیز بھی کیں اور مسلم لیگ (ن) کے لوگ اس کو پروجیکٹ کرنا شروع ہوئے’۔
عمران خان نے کہا کہ ‘جو انہوں نے وزیرآباد میں کیا، ان کا منصوبہ یہ تھا کہ کہیں گے دینی انتہا پسند نے عمران خان کو قتل کردیا جس طرح سلمان تاثیر کا ہوا تھا کیونکہ اس نے مذہب کی توہین کی تھی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں نے یہ منصوبہ 24 ستمبر کو جلسے میں عوام کے سامنے رکھا تھا اور بالکل اسی اسکرپٹ پر ہوا ہے جو وزیرآباد میں ہوا’۔
وزیرآباد حملے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ‘ہم نے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا اور انہیں میری پچھلی غلطیوں کا پتا تھا لیکن میں نے ایک اور منصوبہ بنایا تھا اور ان کو پتا تھا کہ اسلام آباد میں اتنے عوام آئیں گے’۔
‘تین لوگوں نے وزیرآباد میں قتل کا منصوبہ بنایا’
انہوں نے کہا کہ ‘تین لوگوں نے منصوبہ بنایا، یہ وہ تین لوگ نہیں جن 4 لوگوں کا میں نے پہلے نام بتایا تھا، یہ تین اور ہیں، مجھے کیسے پتا چلا، اندر سے لوگوں نے بتایا، وزیرآباد سے ایک دن پہلے، انہوں نے مجھے مارنے کا منصوبہ بنایا اور اسکرپٹ یہی تھا کہ عمران خان سے بڑا کوئی اسلام دشمن نہیں ہے’۔
وفاقی وزیر داخلہ پر الزامات عائد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘تین لوگوں نے بنایا، سب سے پہلے رانا ثنااللہ، کیونکہ رانا ثنااللہ قاتل ہے، رانا ثنااللہ اور شہباز شریف نے ماڈل ٹاؤن میں 70 لوگ قتل کیے تھے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ پیغام دینا چاہتے تھے اور خوف طاری کرنا چاہتے تھے کہ کہیں اسلام آباد میں عوام نہ آجائے، رانا ثنااللہ لانگ مارچ سے بچنے کے لیے ماڈل ٹاؤن میں لوگوں کو قتل کروایا تھا’۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ‘شہباز شریف پر ہیومن رائٹس واچ یا ایمنسٹی انٹرنیشل کی رپورٹ ہے کہ 1997 سے 1999 تک وزیراعلیٰ تھا تو اس نے پولیس مقابلے میں کوئی 900 قتل کروائے تھے، عابد باکسر نے ٹی وی پر آکر بیان دیا تھا کہ یہ کیسے لوگوں کو مرواتا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہی شہباز شریف کا ایف آئی اے میں 16 ارب اور نیب میں 8 ارب کا کیس تھا تو حکومت میں آتےہی 2 مہینوں میں 5 گواہ مرے اور چھٹا ڈاکٹر رضوان دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا اور کسی نے تفتیش نہیں کی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس منصوبہ میں یہ دو شامل ہوئے اور ساتھ یہ مل گئے، فیصل اس لیے مل گیاکہ ایک تو ڈرٹی ہیری، اوپر وعدہ کر کے آیا تھا فکر نہ کرو میں ان کو ٹھیک کرتا ہوں، میرے اوپر چھوڑو، اس پارٹی کو ٹھکانے لگا کر آتا ہوں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے شروع دن بتایا تھا کہ اس نے ظلم شروع کیا، سوشل میڈیا کے لوگوں، بچوں کو اٹھانا کہ تم نے یہ کیوں کیا، پھر پھینٹا لگا کر گھر بھیج دیا اور خوف پھیلایا ہوا جیسے ہم دشمن، بیرونی لوگ یا غدار ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس نے پہلے شہباز گل کو اٹھایا، ٹارچر، ننگا کیا اور تصاویر کھینچیں، تشدد کیا اور وہ ابھی تک ریکور نہیں کیا، اس کے بعد جمیل فاروقی کو اٹھا کر ننگا کیا، پھر اعظم سواتی کے ساتھ ہوا اور اس نے کھل کر نام لیا اور اس جگہ پہنچ گیا اس سے بہتر ہے میں مرجاؤں’۔