پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 15 ارب ڈالر بڑھ گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق جون 2018 میں پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کا حجم 95 ارب 23 کروڑ ڈالر تھا جو اس سال 31 مارچ میں 110 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا ہے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا پھوٹنے کے بعد پاکستان کیلئے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی ایک بحران کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستان میں ڈالرز کی آمد یعنی ڈالرز کا اِن فلو رُک گیا ہے جس کی وجہ سے یکم جولائی سے شروع ہونے والے آئندہ مالی سال میں پاکستان کو اپنی بیرونی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں مستقبل میں پاکستان کا بیرونی قرضہ بڑا بحران پیدا کرنے والا ہے کیونکہ ابھی معیشت کو دوبارہ بحال ہونے میں خاصا وقت لگے گا۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث ابھی مستقبل قریب میں غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقومات یعنی ریمیٹنسز میں کمی آئے گی۔ دوسری طرف برآمدی شعبے کو بحال ہونے میں وقت لگے گا ایسے میں ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے پاکستان کے پاس دو ہی آپشنز ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان آئی ایم ایف سے مزید قرضے کی ڈیمانڈ کرے یا انٹرنیشنل مارکیٹ میں بونڈز فروخت کر کے ڈالر حاصل کرے اور ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھے۔
اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان کا غیر ملکی قرضہ جی ڈی پی یعنی مجموعی قومی پیداوار کے 33 فیصد کے مساوی ہو گیا ہے۔ جب وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالا تھا تو یہ تناسب 26.5 فیصد تھا۔
اس وقت پاکستان کے 110 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں میں ایک سال سے زائد مدت یعنی طویل مدتی قرضوں کا حجم 67 ارب 37 کروڑ ڈالر ہے۔ ایک سال سے کم یعنی قلیل مدتی قرضوں کا بوجھ 2 ارب 69 کروڑ ڈالر ہے۔
آئی ایم ایف کے قرضے:
پاکستان میں آئی ایم ایف کے قرضوں کا بڑا چرچا رہتا ہے۔ یہ بات کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا پاکستان میں قرضوں کا حجم محض 6 ارب 43 کروڑ ڈالر ہے لیکن زیادہ تر قرضے (ملٹی لیٹرل) کثیرالجہتی یعنی مختلف ممالک کی طرف سے دیئے گئے ہیں۔ کوئی بھی ملک اس وقت تک کسی بھی ملک کو قرض نہیں دیتا جب تک اس ملک کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے نہ پا جائے۔ اسی میں پیرس کلب، ملٹی لیٹرل اور بائی لیٹرل قرضے شامل ہوتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق ایک سال سے زائد مدت کے قرضوں میں سب سے بڑا قرض کثیرالجہتی یعنی مختلف ممالک کی طرف سے دیئے گئے قرضوں کا حجم ہے۔ 31 مارچ تک پاکستان پر کثیرالجہتی قرضوں کا بوجھ 28 ارب 86 کروڑ ڈالر ہے۔ پیرس کلب نے پاکستان سے 10 ارب 78 کروڑ ڈالر وصول کرنے ہیں۔
غیر ملکی قرضوں میں دوسرا بڑا کردار بائی لیٹرل یعنی پاکستان اور کسی دوسرے ملک کے درمیان قرضوں کا معاہدہ ہے۔ اس مد میں پاکستان پر 13 ارب 36 کروڑ ڈالر واجب الادا ہیں۔ ان قرضوں میں جاپان، چین، امریکہ اور دیگر ممالک سے حاصل کئے گئے قرضے شامل ہیں۔
نواز شریف دور میں پاکستان نے ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے جہاں آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا وہیں انٹرنیشنل مارکیٹ میں یورو بونڈز بھی فروخت کئے تھے۔ ابھی پاکستان نے یورو بونڈز کی مد میں 5 ارب 30 کروڑ ڈالر ادا کرنے ہیں۔
پاکستان کے سرکاری ادارے بھی مختلف عالمی مالیاتی اداروں اور بینکوں کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز یعنی سرکاری محکموں نے ساڑھے تین ارب ڈالر کے بیرونی قرضے حاصل کئے ہوئے ہیں۔
جے ایس گلوبل کے ہیڈ آف ریسرچ سید حسین حیدر کے مطابق آئی ایم ایف نے مستقبل قریب میں پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کے بوجھ میں کمی کا امکان ظاہر کیا لیکن درحقیقت قرضوں کا حجم ابھی مزید بڑھے گا۔ آئندہ مالی سال 2021 اور 2022 میں جہاں غیر ملکی قرضے بڑھیں گے وہیں پاکستان کی ادائیگیوں کے توازن کے بگڑنے کے 100 فیصد امکانات ہیں۔ پاکستان کو اپنے قرضوں کی ادائیگی کیلئے معیشت کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔ برآمدات کو بڑھانے کے سوا اور کوئی آپشن نظر نہیں آتی۔ ریمٹنسز میں آئندہ مالی سال کمی رہے گی کیونکہ مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن ختم ہونے اور معیشت کی بحالی میں بھی وقت لگے گا لہذا اوور سیز پاکستانیوں سے مزید ڈالر کی امید لگانا فی الحال اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
قرضے کیوں لئے گئے:
ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال بار بار آ رہا ہے کہ آخر ہر حکومت کو آئی ایم ایف اور عالمی برادری کے سامنے کشکول لے جانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔
ماہر معاشیات اور ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد سہیل کہتے ہیں کہ پاکستان میں ڈالر کی آمد اور یہاں سے اس کی رخصتی یعنی ڈالر کے اِن فلو اور آؤٹ فلو میں بہت بڑا عدم توازن ہے۔ اگر پاکستان آئی ایم ایف اور دیگر ممالک سے قرض حاصل نہیں کرتا تو اسے عالمی سطح پر دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے جو کسی بھی ملک کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ جب بھی کوئی ملک عالمی سطح پر دیوالیہ ہو جائے تو پھر دنیا اس کے ساتھ کاروبار نہیں کرتی اور اسے ڈیفالٹ لسٹ میں شامل کر دیتی ہے۔
پاکستان میں اب یہ ایک معمول بن گیا ہے کہ ہر نئی حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی آئی ایم ایف اور عالمی برادری کے سامنے کشکول اٹھانے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ جنرل مشرف کی حکومت ہو یا منتخب پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومت ہو اور اب پاکستان تحریک انصاف ۔
ہر حکومت کو اقتدار میں آنے کے فوری بعد جو کام کرنا پڑا وہ کشکول اٹھا کر قرضوں کی بھیک مانگنی پڑی کیونکہ اگر ایسا نہ کرتے تو ملک دیوالیہ ہونے کا خطرہ تھا۔
بیرونی ادائیگیوں کا توازن ہمیشہ برقرار رکھنا کسی بھی ملک کیلئے ناگزیر ہوتا ہے۔
پاکستان اس سال کتنا غیر ملکی قرضہ ادا کر چکا ہے؟
اس مالی سال میں اب تک پاکستان غیر ملکی قرضوں اور ان پر سود کی مد میں 11 ارب 60 کروڑ ڈالر ادا کرے گا۔ جولائی 2019 سے مارچ 2020 تک پاکستان قرضوں اور سود کی مد میں 9 ارب 71 کروڑ ڈالر ادا کر چکا ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں پاکستان 8 ارب 64 کروڑ ڈالر قرض اور 2 ارب 95 کروڑ ڈالر سود کی مد میں ادا کر چکا ہے۔ 30 جون کو پاکستان اس مالی سال کی آخری سہ ماہی کی قسط ادا کرے گا۔
جی 20 ممالک نے غریب ممالک کے قرضوں کی واپسی میں چھ ماہ کی مہلت دی ہے۔ جی 20 ممالک نے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے کہا ہےکہ پاکستان سمیت دیگر غریب ممالک سے قرضوں کی اقساط کی واپسی میں چھ ماہ کی مہلت دی جائے۔ دسمبر 2020 تک پاکستان اپنے غیر ملکی قرضوں اور اس پر سود کی مد میں کوئی ادائیگی نہیں کرے گا لیکن اس دوران جو واجب الادا اقساط رہ جائیں گی ان کو ایک نئے قرض کی شکل دی جائے گی اور اس کی ادائیگی جون 2022 سے شروع ہو گی اور تین سال میں یہ قرض ہر صورت واپس کرنا ہو گا۔
اوورسیز پاکستانیوں کو لُبھانے کیلئے ایک نئی اسکیم کا اجراء:
بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کیلئے حکومت نے ایک نئی اسکیم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اسکیم کو “اوورسیز پاکستانیز سیونگز بلز” کا نام دیا گیا ہے۔ حکومت ملک میں ڈالرز کی آمد کو بڑھانے کیلئے یہ اسکیم شروع کر رہی ہے۔ اس اسکیم کے تحت غیر ممالک میں رہنے والے پاکستانی گورنمنٹ سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری کر سکیں گے۔ اس اسکیم میں روایتی یعنی سودی اور غیر روایتی یعنی اسلامی سرمایہ کاری کی سہولت دی گئی ہے۔
کون سے پاکستانی نئی اسکیم میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں؟
نئی اسکیم میں ایسے پاکستانی جن کے پاس قومی شناختی کارڈ ہے اور وہ بیرون ملک میں ملازمت یا کاروبار کر رہے ہیں وہ ان گورنمنٹ سیکیورٹیز کو خرید سکتے ہیں۔
ایسے غیر ملکی شہری جو پاکستانی نژاد ہیں وہ بھی اس اسکیم میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔
اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کے ممبرز اس اسکیم سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے وہ ملازمین جن کی پوسٹنگ کسی غیر ملک میں سرکاری طور پر کی گئی ہے وہ بھی اس اسکیم میں سرمایہ کاری کرنے کے اہل ہیں۔
بیرون ممالک میں رہنے والے تمام پاکستانی انفرادی یا مشترکہ طور پر بھی یہ سیونگز بلز خرید سکتے ہیں۔
اس سرمایہ کاری کی مدت تین ماہ، چھ ماہ اور ایک سال تک ہو گی۔
یہ بلز پاکستانی روپے اور ڈالر میں جاری کئے جائیں گے۔
یہ بلز پاکستانی اور پاکستان میں کام کرنے والے غیر ملکی کمرشل بینکوں کے ذریعے جاری کئے جائیں گے۔
ان بلز کی خریداری کیلئے خریدار کو کمرشل بینکوں کی ویب سائٹس پر آن لائن درخواست فارم پُر کرنا ہو گا۔
کسی بھی سیونگز بلز کی اصل مدت سے پہلے بھی خریدار اسے ان کیش کر سکتا ہے۔ تین ماہ سے پہلے انکیش کی صورت میں کسی طرح کا منافع نہیں دیا جائے گا۔
منافع کی شرح کیا ہو گی؟
تین ماہ کے سیونگز بل پر پاکستانی کرنسی میں شرح منافع 9.5 فیصد ہو گی۔ امریکی ڈالر میں یہ شرح منافع 5.5 فیصد ادا کی جائے گی۔
چھ ماہ کی مدت کے بلز پر امریکی ڈالر میں 6 فیصد اور پاکستانی کرنسی میں 10 فیصد منافع دیا جائے گا۔
ایک سال کے سیونگز بلز پر امریکی ڈالر میں شرح منافع 6.5 فیصد اور پاکستانی کرنسی میں 10.5 فیصد ہو گی۔
ایک سرمایہ کاری کم سے کم کتنی سرمایہ کاری کر سکتا ہے؟ بیرون ملک میں مقیم جو پاکستانی اس اسکیم میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں وہ کم سے کم 5000 ڈالر یا ایک لاکھ پاکستانی روپے کے بونڈز خرید کر سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی کوئی حد نہیں ہے۔