
تحریر : محمد فاروق بھٹی
جب آپ کو پتہ چلے کہ جسے آپ ووٹ دینے آئے ہیں وہ تو قطار میں آپ کے پیچھے کھڑا ہے ۔
سب جانتے ہیں کہ ترکیہ کا صدارتی الیکشن ایردوان اور اولو کے درمیان نہیں، عثمانیہ کی عظمتِ رفتہ اور مغرب نواز سیکولرازم کے درمیان ہے۔ ایردوان کو اپنے مدمقابل کمال کلچدار اولو سے 26 لاکھ ذیادہ ملے ہیں اور وہ 49.49% پر کھڑا ہے یعنی 0.51% کی کمی ہے۔ 28 مئی کو دوبارہ یعنی رن آف الیکشن ہو گا جس میں پانچ فیصد ووٹ لینے والے ایس اوغان اور آدھ فیصد ووٹ لینے والے ایم انسی حصہ نہیں لے سکیں گے۔ اب مقابلہ 121 ہو گا۔ فتح کی لکیر سے چند قدم پیچھے رہ جانے والے ایردوان کی قومی امید ہے کہ قریباً ففٹی ففٹی میں تقسیم ترک بہترین فیصلہ کریں گے اور نشاة ثانیہ Renaissance کے حق میں ووٹ دیں گے۔
برصغیر پاک و ہند کے لوگ اس وقت بھی حیران ہوتے تھے جب قاہرہ میں جینز شرٹ میں ملبوس لڑکیاں معزول صدر محمد مُرسی کی حمایت میں جلوس نکالتی تھیں اور جب فلسطین میں بھی آزادی اور Renaissance کے پرچم لہرانے والے جدید تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے لڑکیاں نظر آتے۔ ہم برصغیری لوگ انگریز کے خلاف جنگِ پلاسی 1757ء سے جنگ آزادی 1857ء تک اور پھر آزادی 1947ء تک جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ اس دوران چاندنی چوک میں پھانسی گھاٹ بنانے والے گوروں کی مخالفت کرنے والوں نے ان کی ہر ہر نسبت سے نفرت کی۔ زبان لباس خوراک تک سے حتیٰ کہ اسپیکر، ریڈیو اور ریلوے تک سے۔
یہاں دین پسند اسلام دوست اپنے حلیئے سے پہچانے جاتے ہیں، لباس خوراک اور طرز زندگی ہی سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ قیمتی لوگ اسلام پسند ہیں بلکہ مبلغ اسلام ہیں۔ اس شناخت کے پیچھے ہمارے مدارس اور اساتذہ کا بڑا اہم کردار ہے ۔۔۔ لیکن ذرا ٹھہریئے ۔
جدید تعلیمی اداروں سے نکلنے والے نوجوان لڑکے لڑکیاں دیکھیں ۔۔۔ لمز اور فاسٹ، ایل ایس ای اور نسٹ ۔۔۔ آپ کو بھلے لوگ جینز اور مغربی لباس میں ملیں گے لیکن ان کو آپ نماز کا پابند دیکھیں گے، اسلام کے نام پر اور حرمت رسولﷺ پر قربانی کا جذبہ دیکھیں گے، ذیادہ لوجیکل اور پریکٹیکل بات کرتے نظر آئیں گے۔
امانت و دیانت اور کردار کے معاملے میں اعلیٰ
پاکستان
اور ترکیہ
کے پاس بڑے وسائل ہیں، انسانی بھی آسمانی بھی ۔۔۔ اللہ ان دونوں ممالک کے عوام کو ایسے حکمران عطا فرما دے جو انصاف کے ترازو کو بلند کرنے والے ہوں اور اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے سربکف ہوں۔ آمین

