تحریر: طاہرے گونیش
عشق کیا ہے ؟نیلے پانی کی گہری جھیل!
تصوف کیا ہے؟ اس جھیل کے پانیوں پر تیرتے گلابی اور سفید کھلے ہوئے کنول!
اور من کیا ہے؟ اس پانی میں ایک ٹانگ پہ کھڑے ہوئے فلیمنگوز یا پھر پروں میں سر چھپائے دنیا سے روٹھے ہوئے ہنس!
پھولوں کے انبار تلے خوشبودار مقبرے میں دفن ہوکر آپ اپنے مزار کی چھت پر لٹکے چراغ اور دیواروں پر آویزاں نے دیکھیں اور دروازے پر تصوف کی زبان فارسی کے شعر ملاحظہ کریں تو آپ رومی ہیں آپ فلسفۂ محبت کے خالق ہیں۔اور آپ کے وفادار بھی پہلو میں گلابوں کی ٹہنیوں تلے آسودۂ خاک ہیں یہ محبت اس قدر طاقتور ہوتی ہے کہ لاہور سے محمد اقبال کو بھی علامتی قبر عطا کرتی ہے۔
کہ یہ قونیہ ہے آپ کا شہر، کشادہ دل و زمین و مہربان۔ جہاں اتنے پھول ہیں کہ اگر آسمان پر کوئی جنت قونیہ نام کی ہوتی تو تعجب نہ ہوتا۔
یہاں ادب کا معیار ایسا ہے کہ بے ادبوں کو بابِ گستاخاں سے نکال باہر کرتی ہے اور عاشقوں کو کھلی بانہوں اور بے شمار ابواب سے اندر لے آتی ہے۔
مثنوی، مولانا اور محبت یہ سب آپ کو قونیہ میں خوش آمدید کہتے ہیں۔
درویش اور ان کا وجد والا رقص وہ بھی تو ہوتا ہے لیکن پہلے آپ اس شہرِ بے مثال و ہوشربا میں پہنچتے کیسے ہیں یہ جاننا لازم ہے۔
آپ کو بے شمار بہانے چاہیے ہوتے ہیں اور وہ ملتے رہتے ہیں۔
عشق کی تقويم میں جو اور زمانے ہوتے ہیں جن کا کوئی نام نہیں ہوتا ان کا نام قونیہ ہوتا ہے۔
ماجرا یہ ہے کہ قونیہ کی زیارت کا خیال دل میں یوں کھلبلایا کہ دل کرچی کرچی تھا،اسے جوڑنا تھا۔پھر تو چل تو سہی دل شکستہ لے کر وہ جوڑ دیں ایسا کہ پتہ بھی نہ چلے کے مصداق یہ فیصلہ کیا۔سفر کے ذرائع میں بلٹ ٹرین یعنی گولی کی رفتار سے چلنے والی ریل گاڑی کا انتخاب کیا۔ کیا ہے کہ مجھے درد کو جرعہ جرعہ پینے کی عادت ہے۔طویل سفر اس درد سے ایک معجزہ نکالتا ہے۔ ایسے نہیں جیسے موسی کی جیب سے ید بیضا نکلے ہم تو چھوٹے اور ٹوٹے پھوٹے لوگ ہیں ہماری آستین سے اژدھے نکلتے رہتے ہیں۔سو ان سب سے چھٹکارا ہوتا ہے لمبا سفر اور پھر مجھے اناطولیہ کا طول عرض دیکھ کر اپنے دکھ بھلانے تھے جن کے میرے سینے میں ٹھکانے تھے۔ دماغ بھی تو ٹھکانے لگانا ہوتا ہے۔سو طے پایا کہ ٹرین ہی مناسب ہے ۔ کھڑکی والی سیٹ بک کروائی۔تقسیم سے تین دو بسیں بدل کر استنبول میں ٹرین پکڑی (اگر آپ سیاح ہیں تو ہر گز بذریعہ ٹرین نہ جائیں، وقت، نا تجربہ کاری، زبان اور رستوں سے انجان ہونا مشکل پیدا کر سکتا ہے۔و ما علینا الا۔۔۔ )۔
ٹرین میں پھولی سانسوں سمیت سوار ہوتے سمے ایک بچی بے تحاشہ باپ سے بچھڑنے پر درد ناک راگ الاپ رہی تھی اس کے آنسو بارش کے موٹے قطروں کے ایسے اس کی گالوں پر آکر سٹیشن پر ٹرین کی مانند رکے ہوئے تھے۔ میں نے از راہ ہمدردی اس کے گال سے آنسو صاف کیے تو اس کی ماں نے بچی مجھ سے دور اس طرح کھینچی گویا کوئی رفیق کار دوسرے رفیق کار کی ٹانگ کھینچتا ہے یعنی بے دردی سے۔اس کی ماں پر لعنت بھیجنے سے قبل بیڈ ٹچ اور گڈ ٹچ والے معاملے پر لعنت بھیجی۔ ہمیں تو گلی میں کوئی بھی ڈانٹ یا مار سکتا تھا۔کجا کہ آنسو صاف کرتا۔
خیر، ٹرین میں سوار ہوئی اور ٹرین گھونگے کی طرح رینگ کر گولی کی رفتار پکڑنے لگی۔(پاکستان میں کسی ٹرک کے پیچھے لکھی لائن یاد آئی جو یہاں درست بیٹھ رہی تھی کہ ‘میں دیکھنے میں بھولی ہوں لیکن بھاگنے میں گولی ہوں’)۔جانے کب ایسکی شہر آیا۔یہاں سے گزرتے سمے قائی قبیلے کا ہر گز خیال نہ آیا۔کیونکہ میں باہر کھیتوں کے نظارے کرنے میں مصروف تھی۔ کھیت کیا تھے گویا خوش فہمیوں کے پھیلے ہوئے سلسلے تھے جن میں سورج مکھی کے پھول لہرا رہے تھے۔پھر اس سے آگے اناطولیائی میدانوں میں خربوزے کے کھیت اور گندم کی سنہری ڈالیاں اور بھیڑوں کے ریوڑ تھے جا بجا۔پانچ گھنٹے سے کچھ کم وقت میں قونیہ آ گیا۔یا پھر ہم قونیہ آگئے۔ یہ سب ما بعد الطبیعات کے سوالات اکثر میری طبیعت اور دماغ دونوں خراب کر دیتے ہیں۔
سامان اٹھا،ٹیکسی لے، سلجوق ہوٹل پہنچی۔یہ رومی کے مزار سے بے حد قریب چار ستاروں والا ہوٹل ہے۔دام سے لگ رہا تھا مسکین سا ہوٹل ہوگا مگر بے حد شاندار تھا۔قونیہ استنبول کے مقابلے میں دس گنا سستا ہے۔یعنی ہمیں لگتا ہے کہ ہم کافی امیر ہیں قونیہ میں !قہقہہ۔۔
چھ بج رہے تھے موبائل سے ریستوران چننا چاہا کہ پیٹ کے چوہے اب بلیاں بن کے معدے کو نوچ رہے تھے۔مگر یا حیرت! سارے ریستوران سرِ شام ہی بند! اب استنبول کی رہائشی کے لیے تو یہ ایٹم بم جیسا ہی دھماکا ہے ناں! یعنی شور و غوغا شام کے بعد ممنوع۔
باہر نکلی شاید کچھ کھلا ہو، لیکن رومی کے خانقاہ کے پہلو میں کوئی بھوکا کیسے سو سکتا ہے!عقب میں میولوی ریستوران کھلا تھا۔اس مسرت کا حساب میں نہیں لگا سکتی تھی جو ملی تھی۔ خیر کھانے میں مشہور ڈشز جو مینیو دیکھے بغیر ہی ازبر تھے آرڈر کیے ، بھنڈی کا سوپ اور لسی اور تِر اِت یہ ایک قسم کا مکھن میں بنا گوشت ہوتا ہے۔ جسے شوربے والی روٹی پر انڈیلا جاتا ہے۔یہاں دیگر مشہور کھانے؛ میولوی پلاؤ،(اس کو مولوی نہ پڑھیں، مولانا پھر بھی جائز ہے) ، (ترکش میں )جگر ( اردو میں کلیجی)، کباب، اور سب سے مشہور چیز ایتلی ایکمیک ہے جو روٹی پر پسا ہوا گوشت اور الم غلم ہوتا ہے۔ لیکن اتنا لذیذ کہ قونیہ آپ کو جنت معلوم ہوتا ہے، اس کو کھا کر۔ناشتہ ہوٹل والوں کی عنایت تھی،حق تو یوں ہے کہ حق ادا ہوا ! بڑا اچھا ناشتہ تھا۔جانے کس موج میں،میں نے تازہ پودینے کے پتے،ادرک اور لیموں کی قاشیں اپنے فنجان میں ڈال کر شہد اس پر گرا کر چائے ڈالی تو کئی لوگ میری تقلید میں ایسا کرنے لگے۔ کھڑکی سے باہر شہر کا منظر کسی فلم کے لیے لگائے گئے سیٹ کی طرح تھا۔
جنتی چائے کی چسکیاں لے کر باہر آئی، مولانا کے مزار کی راہ لینے سے قبل استری والے سے قیمت دریافت کی، ایک شرٹ کے جتنے مانگ رہا تھا اتنے کی شرٹ نہیں تھی سو اس اصراف سے خود کو بچا کر باہر بنا استری شدہ شرٹ کے ہم گھوما کیے۔مولانا کے مزار سے قبل ان کے مرشد جناب شمس تبریزی کے مزار پر حاضری دی۔گرچہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کی اصلی قبر وہاں نہیں ہے،جہاں بھی ہو ہمیں تو حاضری سے مطلب ہے۔محبت و عقیدت میں حاضری قاصد کی طرح ہوتی ہے پہنچ جاتی ہے بس۔ شمس کے مزار کے دیوار کے پاس ایک بچہ اتنی رنگ برنگی شیرینی سجائے بیٹھا تھا کہ مجھے لگا یہ میرے زخموں کا مرہم ہو سکتی ہے سو دھڑا دھڑ خریدی۔وہ نو دس سالہ بچہ مجھے آپشنز دیتا رہا کہ یہ تربوز کے ذائقے اور یہ نارنج والی ہے۔میولوی شکر خریدتے ہوئے دفعتا میں نے بچے سے پوچھا کہ تم کیسے بیچ ریے ہو یہ سب اتنے چھوٹے سے ہو اور گاہکوں سے مول تول میں اتنے ماہر! بچہ اداس سی نظروں سے دیکھ کر مجھ سے گویا ہوا؛ ‘باجی میرا باپ ہسپتال میں ہے’۔اس کا چچا جو ادھر ہی ریشمیں سکارف بیچ رہا تھا بولا کہ بیٹا اس کا باپ بیمار ہے تب ہی میری سرپرستی میں یہ شیرینی بیچتا ہے۔دل ایسا موم ہوا کہ آنکھوں کے رستے بہہ جانے کو مچلنے لگا۔ میری روئی روئی سی آنکھیں گواہی دیں گی کہ شمس وہاں تھا۔کیونکہ محبت اور مہربانی وہاں تھی۔
ڈھیر ساری شیرینی لے کر دعا کے بعد اگلا پڑاؤ مولانا کا مزار تھا۔ مولانا کی زیارت جس دن کرنی تھی اس دن پاکستان کے اس وقت کے صدر ممنون حسین بھی آئے تھے۔ خیر، شام کے سکوت کے بعد کچھ چہل پہل دیکھ کر دل پرسکون ہوا، ورنہ کافی اندیشہ لاحق تھا۔اصل میں قونیہ رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا شہر ہے لیکن آبادی بہت کم ہے، زیادہ تر لوگ مذہبی اور روایتی قسم کے ترک ہیں۔ سو نائٹ لائف کچھ نہیں بس شام ڈھلے کھانا کھاؤ نماز پڑھو اور سوجاؤ۔ صبح سویرے اٹھو نماز پڑھو اگر پڑھنی ہے، نہیں پڑھنی تو لاٹھی کسی کے ہاتھ میں نہیں۔پھر بوڑھے بوڑھیاں باہر بیٹھ کر پچھلے وقتوں کو یاد کرتے ہیں۔قونیہ میں مولانا کے مزار کے علاوہ دیگر جگہوں میں سے ایک الہ دین پارک ہے جو مزار سے چند گز کے فاصلے پر واقع ہے۔جہاں پر جوان مذہبی حلیے والی عورتیں سگریٹ اور حقہ نوشی کرتی ہیں۔وہاں کا مکئی بہت لذیذ ہوتا ہے اور مالٹے کا جوس بھی۔اس کے علاوہ حیوانات کا باغیچہ ہے جہاں بہت سارے hazelnut (ترکش میں فَندَق ہے،اسے عربی والا فندق نہیں سمجھا جائے، اردو میں نام نہیں آتا۔)کے درخت ہیں۔
یہاں کے کبوتر بھی خاصے کی چیز ہیں،ان کے بغیر شہر کا کوئی چوراہا مکمل نہیں ہوسکتا۔ یہ آپ کے قدموں کی چھاپ سن کر آپ کا استقبال کرنے کو منقارِ زیر پر ہلکی سی اڑان بھرتے ہیں۔کبوتروں کے ان غول میں سے گزر کر ہی آپ مولانا کے مزار کو جا سکتے ہیں۔کیسے خوب دربان ہیں۔درویش کبوتر!
مولانا کے مزار پر ادنی عاشق و عقیدت مند کی حیثیت سے جاتے ہوئے اقبالِ لاہوری کو سلام پیش کیا۔جہاں دیگر ترک شعراء بھی دفن ہیں۔ جن کی قبور کو ارغوانی پھولوں کی جھاڑیوں نے گھیر رکھا ہے۔مزار کا احاطہ حاتم طائی کے دل ایسا بڑا اور کشادہ ہے۔ ایک جانب خانقاہ ہے جہاں سب برتن اور مولانا کے زیر استعمال گھریلو اشیاء ہیں۔ایک جانب سلسلہ وار چھوٹے سے کمرے ہیں جن میں نے اور چراغوں اور چغوں سے لے کر کتب تک سب کچھ ہے۔مزار کے اندر داخل ہو کر صرف مولانا کی قبر ہی نہیں دیگر تبرکات بھی پلک جھپکنے نہیں دیتیں۔ ایک جانب حضرت محمد مصطفی کا موئے مبارک دل نشین صندوق میں بصد احترام موجود ہے۔دوسری جانب حضرت عثمان کے ہاتھ کا لکھا قرآنی نسخہ آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے تو تیسری جانب مولانا کی پوشاکیں دامن کو کھینچ لیتی ہیں۔مزار کے اندر یہ سب متبرک اشیاء دل ایسا موہ لیتی ہیں کہ وہاں سے جسم تو نکل آتا ہے پر جان ادھر بھٹک کر ادب سے دو زانو بنی رہتی ہے۔میں بھی جسدی طور پر وہاں سے نکلی تھی کہ شام کو استنبول واپس جانا تھا لیکن اس سحر سے کہاں نکلی ہوں اس اثر میں آج بھی ہوں۔دل جڑا اگر نہیں مگر وسیع ضرور ہوا۔”و لسوف یعطیك ربك” کا مطیع ضرور ہوا!
استنبول ترکی کی رہائشی ، فی الحال باکو آذربائیجان میں مقیم ہیں۔ طاہرے ہفت زبان مترجم اور ماہر زبان و بیان ہیں۔ انھوں نے عربی کی تعلیم بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اور ہسپانوی کی تعلیم نمل یونیورسٹی اسلام آباد، پاکستان سے حاصل کی۔فارسی ، اردو لسانیات و ادبیات اور اقبال سے قلبی و روحانی لگاؤ ہے۔
طاہرے گونیش سے رابطہ کریں۔
2 Comments
بہت شاندار تحریر۔۔۔
ادب اور شگفتگی کا خوبصورت امتزاج۔
بہت بہت شکریہ آپکا