تُرک دارالحکومت انقرہ کی ایک عدالت میں سعودی صحافی جمال خشوگی قتل کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔ استغاثہ نے 20 سعودی شہریوں پر قتل کے الزامات کے تحت کیس دائر کیا ہے۔ تمام ملزمان فی الحال ترکی میں موجود نہیں ہیں تاہم عدالت نے ان ملزمان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیئے ہیں۔
سعودی صحافی جمال خشوگی کو اکتوبر 2018 میں انقرہ میں سعودی سفارتخانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ قتل کے بعد ان کی لاش کے ٹکڑے کر کے انہیں تیزاب میں جلا کر باقیات کو سفارتخانے سے باہر لے جا کر پھینک دیا گیا۔ تاہم ابھی تک تُرک پولیس جمال خشوگی کی لاش کی باقیات تلاش نہیں کر پائی ہے۔
عدالت میں کہا گیا ہے کہ جمال خشوگی کے قتل کے احکامات براہ راست سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دیئے تھے۔ جمال خشوگی امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز میں باقاعدہ کالم لکھا کرتے تھے اور ولی عہد محمد بن سلمان کے سخت ناقد تھے۔
سعودی عرب میں جمال خشوگی کے قتل پر علیحدہ سے ایک کیس عدالت میں دائر کیا گیا تھا جس میں پانچ افراد کو سزائے موت اور تین کو عمر قید کی سزا سنائی گھی تھی۔
تُرک پراسیکیوٹرز نے سعودی انٹلی جنس کے سابق نائب سربراہ احمد العسیری اور رائل کورٹ کے میڈیا ایڈوائزر القہطنی کو مرکزی ملزم قرار دیا ہے۔
جمال خشوگی جو امریکہ میں رہائش پذیر تھے وہ انقرہ میں سعودی سفارتخانے اپنی شادی کے کاغذات وصول کرنے گئے تھے۔ عدالت میں جمال خشوگی کی منگیتر بھی موجود تھیں۔ اقوام متحدہ میں ماورائے عدالت قتل کے خصوصی نمائندے ایگنس کیلامرڈ نے بھی عدالت میں موجود تھے۔
امریکی ایجنسی سی آئی اے اور مغربی ممالک نے اس قتل کا الزام ولی عہد محمد بن سلمان پر عائد کیا تاہم وہ اس کی تردید کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمائندے ایگنس کیلامرڈ نے عدالت کو بتایا کہ جمال خشوگی کا کیس اصل میں قتل عمد ہے۔ انہیں جان بوجھ کر سفارتخانے میں قتل کیا گیا۔ یہ ایک ماورائے عدالت قتل ہے جس میں سعودی حکومت براہ راست ذمہ دار ہے۔