turky-urdu-logo

پاکستان کی ترقی کے لیے ہمیشہ اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے، محسن بالجی

پاکستان میں موجود ترک تعاون اور رابطہ ایجنسی ٹکا کے کوآرڈینیٹر  محسن بالجی کا ترکیہ اردو سے خصوصی انٹرویو کیا ۔ محسن بالجی  نے کہا  کہ   ٹکا نے اب تک 170 ممالک میں 30 ہزار منصوبے مکمل  چکے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم ، ثقافت ، صحت ، ماحولیات، صلاحیتوں میں نکھار اور خواتین کے روزگار کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ ہمارے صحت کے سب سے اہم منصوبوں میں مظفر گڑ ھ میں طیب ایردوان اسپتال شامل ہیں

ٹکا ترک تعاون اور ہم آہنگی کی صدارتی ایجنسی ہے جو وزارتِ ثقافت و سیاحت کی سرپرستی میں 62 دفاتر کے ساتھ 62 ممالک تعمیر و ترقی کا کام کر رہی ہے۔ اور ایسے ممالک جن میں ہمارے دفاتر نہیں ، انہیں شامل کیا جائے تو پھر 170 ممالک بنتے ہیں ۔

 

یہ ایک ایسی ایجنسی جو 170 ممالک میں ہر سال تعمیر و ترقی کا کام کر رہی ہے۔ ہم ٹکا کے قیام کی تیسویں سالگرہ منا رہے ہیں ۔اور  ٹکا نے اب تک 170 ممالک میں 30 ہزار منصوبے مکمل  چکے ہیں ۔ یعنی ٹکا  سالانہ اوسطاً 2000 منصوبوں کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر ہماری کارکردگی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ جن ممالک میں ہم کام کر رہے ہیں ، ان کے ہر ممکنہ شعبے یعنی تعلیم ، ثقافت ، صحت ، ماحولیات، صلاحیتوں میں نکھار اور خواتین کے روزگار کے مواقع وغیرہ فراہم کر رہے ہیں  ۔ پاکستان میں ٹکا کی موجودگی کے حوالے سےبات کرتے ہوئے کیا کہ

ٹکا پاکستان میں 2010 سے کام کر رہا ہے ۔ اس دفتر نے یہاں 12 برس کے عرصے میں 600 منصوبے مکمل کیے ہیں۔ 2019 میں ہم نے کراچی میں 2 دفاتر قائم کیے۔ وہ کراچی میں 3 برس سے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں ہم سب سے زیادہ لگن سے کام کر رہے ہیں ۔ کیونکہ ترکیہ اور پاکستان کے مراسم بہت قریبی ہیں اور اور ہم ان تعلقات کو مزید بہتر کرنے میں اپنا روزمرہ حصہ ڈال رہے ہیں۔ یہ حقیقت کہ پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات دن بدن گہرے ہو رہے ہیں ، اس  سے ٹکا کے کندھوں پر ذمہ داری میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم اس سلسلے میں بھی کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کو مزید قریب لائیں اور ایک دوسرے کو مزید بہتر جان سکیں۔ یہ ایک ایسا انداز ہے جسے ہم ترکیہ کا تعمیری انداز کہتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ہم اپنی فعالیت کو دوسرے ممالک لے کر جا رہے ہیں ۔ یہ مقامیت ہے ، یعنی اس میں ہم منصوبوں کو مقامی لوگوں کی مرضی کے مطابق ترتیب دیتے ہیں ۔ حقیقتاً ہم ان کی ترجیحات کو اپنی ترجیحات پر فوقیت دیتے ہیں ۔ ہم اپنے ترکیہ نما ترقی ماڈل کو ان کے ساتھ شیئر کرتے ہیں اور کوئی توقع بھی نہیں رکھتے ۔ ہمارا ہمارے دوستوں اور پاکستان کے ساتھ کوئی خفیہ مفاد بھی نہیں ۔ یہی چیز ہمیں قدرے مختلف بناتی ہے ۔ ہم اس رویے کے ساتھ پاکستان میں  تعلیم ، صحت، زراعت  کے شعبے میں ترقی  بڑی لگن کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہی۔ ہم ان تمام  شعبوں میں توجہ سے کام کر رہے ہیں جن شعبوں کو ہم نے قائم کیا ۔ ہمارے صحت کے سب سے اہم منصوبوں میں مظفر گڑ ھ اور طیب ایردوان اسپتال شامل ہیں جو وبا کے دور میں کورونا کے خلاف جنگ کا مرکز تھا ۔

آج ایک اسپتال کا انتخاب کیا گیا ہے جسے حکومت پاکستان کی جانب سے اسپتال کا درجہ ملا ، اس میں مزید شعبوں کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔

وبا کے دور میں بھی اس اسپتال میں ٹکا نے اپنا کام جاری رکھا ۔ اب ہمارا ایک متحرک کلینک پروجیکٹ جلد ہی کام شروع کر دے گا ۔ جس کے ذریعے حالیہ سیلاب متاثرہ مقامات میں طبی امداد دی جائے گی۔ چونکہ پاکستان میں بیماریوں میں روزانہ کی بنیاد  میں اضافہ ہو رہا ہے لہذا ہمارا ایک متحرک کلینک سسٹم تجرباتی مرحلے میں ہے ، تاکہ طبی امداد دی جا سکے۔

 

پاکستان میں تعلیمی نظام کو بہتر بننانے کے لیے ہم بہت سی یونیورسٹیز سے تعلیمی حوالے سے رابطے میں ہیں ۔ تعلیمی روابط کی بہتری کے سلسلے

 

میں بہت سی یونیورسٹیز کے لیے ہمارے منصوبے ہیں۔

یونیورسٹیوں میں لیبارٹریز کا اہتمام اور دونوں ممالک کے اساتذہ کو دہائی کی بنیاد پر قریب لانا ہمارے اس سال کے منصوبوں میں شامل ہے ۔ اس سال ہم نے بہت سے اقدامات کیے ، بالخصوص نسٹ یونیورسٹی اور قائد اعظم یونی ورسٹی میں ۔ اپنے مراسم بڑھانے کے لیے ہم نے قائد اعظم یونیورسٹی میں مر

 

کزی انکیوبیشن سینٹر کو قائم کیا۔ اسی دوران ہم نے وہاں لائبریری کے لیے ڈیجیٹل مرکز بھی قائم کیا۔ اس طرح پرانی ، نایاب کتب کو ڈجیٹلائز کر کے محفوظ کیا جائے گا۔ اسی طرح قائد اعظم یونیورسٹی میں انکیوبیشن سینٹر کے قیام سے طلبہ کاروباری زندگی کے سلسلے میں سرگرمیوں کے ذریعے کاروبار اور مختلف کمپنیز سے انٹرویوز کی تربیت حاصل کر سکیں گے۔

ہم ان تربیتی کیمپس کو ٹیکنو پارک ترکیہ کے تعاون سے جاری رکھیں گے۔

ٹیکنو پارک کے تعاون سے قائد اعظم یونیورسٹی اور میں بہت سے تکنیکی، نظریاتی اور اور عملی تربیت گاہوں کا اہتمام کریں گے۔ مثلاً طلبہ اور کاروباری شخصیات کو کاروبار کے سفر کا آغاز سکھانا۔

ہم تا حال نسٹ میں ایک لیبارٹری کے قیام پر کام کر رہے ہیں اور امید ہے کہ یہ منصوبہ سال کے اختتام تک مکمل ہو جائے گا۔

 

زراعت کے شعبے میں بھی ہم اہم کام کیے گئے ہیں۔ ہمیں گِٹ ریزورٹ کی خواتین کے لیے شہد کی مکھیوں کو پالنے کا اندازہ ہوا ۔ ہم یہ زراعتی شعبہ تحقیق کے تعاون سے کر رہے ہیں ۔

ہم نے اس شعبے میں پاکستان کی 50 کاروباری خواتین تربیت دی ہے۔ ہم نے اس حوالے سے ضروری آلات بھی عطیہ کیے ہیں۔  لہٰذا خواتین اپنی معیشت کو اپنی مرضی کے کام کے ذریعے سہارا دے رہی ہیں ۔ ہم شہد کی مکھیوں کو پالنے کے کام کو زراعتی شعبہ تحقیق کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ شہد کی مکھیوں کو پالنے کا وہی سلسلہ ہے جو ہم ہر سال ترتیب دیتے ہیں۔

ہم نے شہد کی مکھیوں کے حوالے سے لیبارٹری قائم کی ہے جو پاکستان میں اس پر تحقیق کے لیے سب سے اہم ہے ۔ ہم نے جو دو لیبارٹریز اس حوالے سے قائم کی ہیں وہ ابھی انرجی سینٹر میں زراعتی شعبہء تحقیق میں جاری ہیں۔ ہم اس میں اضافہ کرتے رہیں گے ۔ انرجی پھلوں ، سبزیوں ، گرین ہاؤس وغیرہ جیسے شعبوں میں ان کا اہم شریک ہے۔ جیسے ہم نے ان کے ساتھ پہلے م کام کیا ہے، ہم 2023 اور اس کے بعد بھی اپنا کام جاری رکھیں گے۔

صرف یونیورسٹیوں میں تعلیم ہی ہمارا واحد مقصد نہیں۔ ہم پرائمری اور ہائی اسکولز میں بھی کام کر رہے ہیں ۔ عمومی منصوبوں میں اسکولوں میں اضافہ یا اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر شامل ہیں۔

تلہ گنگ میں ہم نے ایک کافی بڑے اسپورٹس کمپلیکس کو دیکھا۔ وہاں ان کے لیے مختص جگہ میں ایک خوبصورت اسپورٹس کمپلیکس تھا ، جہاں والی بال، باسکٹ بال اور فٹبال گراؤنڈ تھا۔ جن کی وجہ سے بچے بورڈنگ اسکول میں رہائش کے علاوہ کھیلوں کی سرگرمیاں بھی سر انجام دے سکتے ہیں ۔

اسی طرح ہم نے لاہور کے منصورہ کالج میں ایک کیمیکل لیبارٹری کے قیام کو سپورٹ کیا۔ ہم مختلف منصوبوں ، مثلاً لیبارٹریز کی تزئین و آرائش اور مختلف اسکولوں کے لیے کھیلوں کے میدان تعمیر کر رہے ہیں۔ پرائمری اور سیکنڈری اسکول لیول پر اسلام آباد میں ایکسلینس اسکول بھی۔

 

ضلع سوات میں سب سے بڑا ریاستی کالج  بھی ، جہاں 2000 طلبا ہیں، مگر انرجی کی کمی کے باعث لیبارٹریز اور ہاسٹلز کا موثر استعمال نہیں کر سکتے۔ یہاں ہم آگے بڑھ کر انرجی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سولر پینل لگائیں گے۔ امید ہے کہ یہ منصوبہ کچھ ہی مدت میں مکمل ہو جائے گا ۔

اس طرح ہمارے منصوبے بہت سے شعبوں میں جاری رہیں گے۔ ہم نے آزاد جموں و کشمیر میں ایک فیشن ڈیزائننگ ورکشاپ کا بھی اہتمام کیا۔ ہم وہاں سوشل ویلفیئر یونٹ کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ وہ اپنے مرکز میں نوجوان ، بے روزگار خواتین کے لیے بڑی تعداد میں منصوبے ترتیب دے رہے ہیں۔ ہم ان کے دفتر کا ساتھ دے رہے ہیں اور ہم نے فیشن ڈیزائننگ ورکشاپ کے سلسلے میں امداد بھی دی ، جس بھی فیشن سے متعلقہ چیز کی خواتین کو ضرورت ہے۔

 

اس کے ساتھ ساتھ ہم نے یہ بات یقینی بنائی کہ نوجوانوں کے پاس کمپیوٹر لیبارٹری کی سہولت ہو۔  اور ہم نے اس حوالے لائبریری کے قیام کے لیے اقدامات اُٹھائے ہیں، تاکہ طلباء ایک مناسب ماحول میں علم حاصل کر سکیں ۔

ہماری سرگرمیاں مختلف شعبوں میں جاری ہیں۔ مگر جیسا کہ میں نے کہا پاکستان میں صحت ، تعلیم ، زراعت، کاروبار اور افرادی قوت میں اضافے جیسے شعبوں پر ہماری توجہ مرکوز ہے

سب سے پہلے ، پاکستان ہمارا برادر ملک ہے ۔ لہٰذا مجھے یہ پرایا دیس نہیں محسوس ہوتا۔ یقیناً یہاں کافی چیزیں ہمارے ملک سے مختلف ہیں۔ شروع سے ہی یہ ایک درختوں والا ملک ہے۔ یہاں آپ سبز رنگ کا ہر پہلو دیکھ سکتے ہیں۔  لہذا یہاں ، بالخصوص اسلام آباد میں رہنا اس حوالے سے بہت عمدہ بات ہے۔ یہ ایک ہرا بھرا ملک ہے ، خوبصورت دار الحکومت ہے ، شاید دنیا کے خوبصورت ترین دارالحکومتوں میں سے ایک ہے ۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں رہنا بڑی زبردست بات ہے ۔ پاکستان میں لوگ ہمارے لوگوں جیسے ہیں۔ جہاں بھی ہم جائیں، وہ ہمارے ساتھ گرمجوشی سے ملتے ہیں ۔ ترک ثقافت سے واقف ہیں ۔ حال ہی میں ترک ٹیلیویژن سیریز کے سبب پاکستان اور ترکیہ کے درمیان روایات کا رشتہ دوبارہ استوار ہو گیا ہے۔ لہٰذا ہم یہاں رہتے ہیں تو ہمیں اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ شاید کچھ نکات ہر ہم مختلف ہیں ۔ پہلی چیز کھانا ہے۔ سب پکوان لذیذ ہیں ، مگر ہمارے ترک کھانوں کے مقابلے میں مسالہ تھوڑا تیز ہے۔ ہم ذرا کم مسالوں کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ہم پاکستانی پکوانوں کو آزمانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

خوش قسمتی سے ہم یہاں ویسے ہی رہ رہے ہیں جیسے اپنے ملک میں رہتے ہیں ۔ پاکستانیوں کی ترکوں سے محبت ہمیں یہاں رکھے ہوئے ہے۔

پاکستانی لوگوں سے بات چیت بھی ہمارے کام کی لگن میں اضافہ کرتی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا ، اس سے ہمارے کندھے پر بوجھ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ ان کے پیار کا قرض بھی تو آخر ہمیں چکانا ہے۔

لہٰذا ہم اپنی سرگرمیوں اور تعلیم کو بلا تعطل جاری رکھے ہوئے ہیں۔

 

Read Previous

پاکستان نے افغانستان سے سفارتخانوں کی سیکیورٹی بہتر کرنے کا مطالبہ کردیا

Read Next

ڈاکٹر اسد مجید خان پاکستان کے سیکرٹری خارجہ مقرر

Leave a Reply