وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا ہے کہ کراچی میں طیارہ حادثے کے ذمے دار پائلٹ، کو پائلٹ اور ایئر ٹریفک کنٹرول کے حکام ہیں۔ قومی اسبملی میں حادثہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے غلام سرور خان نے کہا کہ پائلٹس اور ایئر ٹریفک کنٹرول حکام نے قواعد و ضوابط کو نظر انداز کیا جس کے باعث حادثہ پیش آیا۔
واضح رہے کہ عید الفطر سے دو روز پہلے کراچی ایئر پورٹ کے قریب رہائشی علاقے میں پی آئی اے کا ایئر بس طیارہ گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں عملے سمیت 97 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
وزیر ہوا بازی نے کہا کہ طیارہ تکنیکی طور پر بالکل ٹھیک تھا اور دونوں پائلٹس طبی طور پر جہاز اڑانے کیلئے فٹ تھے۔ انہوں نے کہا کہ طیارے کے کاک پٹ ریکارڈر اور ڈیجیٹل فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر کو غیر ملکی ماہرین کی موجودگی میں ڈی کوڈ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ طیارہ پرواز کیلئے مکمل طور پر ٹھیک تھا۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث فضائی سفر پر پابندی کی وجہ سے جہاز گراؤنڈ تھے لیکن حادثے کا شکار ہونے والے طیارے نے 7 مئی سے 22 تک چھ پروازیں کیں جس میں سے پانچ اندرون ملک اور ایک شارجہ کیلئے تھی۔
ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطے کے دوران پائلٹ نے جہاز میں کسی تکنیکی خرابی کا ذکر نہیں کیا تھا۔ رن وے سے صرف 10 کلومیٹر کی دوری پر جہاز کا زمین سے فاصلہ ڈھائی ہزار فِٹ ہونا چاہیئے تھا لیکن جہاز 7220 فٹ کی بلندی پر تھا۔ یہ پائلٹ کی پہلی غلطی تھی۔ پائلٹ کو ایئر ٹریفک کنٹرول کی طرف سے تین بار پیغام دیا گیا کہ زمین سے اپنی اونچائی کو کم کرو لیکن پائلٹ نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا۔
غلام سرور خان نے کہا کہ پائلٹ نے پانچ میل کی دوری پر طیارے کے لینڈنگ گیئرز بند کر دیئے تھے حالانکہ اس سے پہلے گیئرز کھلے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جہاز خودکار نظام کے تحت لینڈنگ کیلئے تیار تھا لیکن آخری لمحات میں پائلٹ نے اسے مینول پر منتقل کر دیا۔ جہاز کو 40 ڈگری پر نیچے کی طرف آنا چاہیئے تھا لیکن یہ 60 ڈگری پر زمین کی طرف آ رہا ہے۔
انہوں نے قومی اسبملی کو بتایا کہ پائلٹ کا دھیان کسی اور طرف تھا اور وہ ضرورت سے زیادہ پُر اعتماد تھے۔ لاہور سے کراچی تک پرواز کے دوران پائلٹس آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ وہ آپس میں اپنی فیملی میں کورونا وائرس کے مریضوں پر بات کر رہے تھے۔ جب ایئر ٹریفک کنٹرول نے انہیں جہاز کی بلندی سے متعلق انہیں بتایا تو پائلٹ نے جواب دیا کہ وہ اسے دیکھ لے گا۔ یہ ضرورت سے زیادہ اعتماد تھا۔
وزیر ہوا بازی نے کہا کہ ایئر ٹریفک کنٹرول نے پہلی بار لینڈنگ میں ہونے والے نقصان سے متعلق آگاہ نہیں کیا۔ جب ایئر ٹریفک کنٹرولر کو جہاز کے انجن میں آگ لگی دکھائی دی تو انہوں نے پائلٹ کو اس سے متعلق نہیں بتایا۔ جب جہاز زمین سے ٹکرانے کے بعد دوبارہ فضا میں بلند ہوا تو اس کے انجن کو خاصا نقصان پہنچ چکا تھا۔
غلام سرور نے کہا کہ پائلٹ ایک تجربہ کار اور پروفیشنل پائلٹ تھا لیکن پوری پرواز کے دوران ان کا دھیان کہیں اور رہا۔