
رپورٹ: شبیر احمد
چالیس برس قبل مغربی سرحد سے آئے افغان مہاجرین کو اب اپنے ملک واپس روانہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی وفاقی نگران کابینہ نے ملک بھر سے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افغانستان پر سویت یونین کے حملے، خانہ جنگی ، وار آن ٹیرر اور طالبان کے دوبارہ اقتدار کے نتیجے میں لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا تھا۔اقوام متحدہ ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے مطابق اس وقت پاکستا ن میں 37 لاکھ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ اس میں 6 لاکھ مہاجرین وہ ہیں جنہوں نے اگست 2021 کو امارت اسلامیہ کے قیام کے بعد سرحد پار کی۔
وفاقی نگران کابینہ کے فیصلے کے مطابق 11 لاکھ مہاجرین اس وقت ایسے ہیں، جن کے پاس کوئی قانونی دستاویز/ویزہ نہیں۔اس کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ یہ لوگ کسی نہ کسی سطح پر غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔اس بناء پر دہائیوں کی میزبانی کے بعد غیر قانونی طور پر آباد مہاجرین کو افغانستان واپس جانا ہوگا۔ حکومت پاکستان کے اس فیصلے کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو جاری ہے۔
انتہائی اہمیت کے حامل اس موضوع پر ماہر افغان امور اور صحافی محمود جان بابر نے ترکیہ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس وقت متعدد کارروائیوں کے اندر افغان ملوث پائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کو اپنے لوگوں کو روکنے کے لیے فتوی دینا پڑا۔ پاکستان کے خدشات بالکل درست ہیں کہ جرائم میں افغانوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔’
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں سی ٹی ڈی نے لاہور سے دہشت گردوں کا ایک گروپ پکڑا ہے۔ اس گروپ میں بھی افغانوں کی شناخت پائی گئی ہے۔ لہذہ، غیر قانونی طور پر آباد افغان مہاجرین کو نکالنے سے یہ مسائل حل ہوسکتے ہیں’
کچھ روز قبل افغان قونصل جنرل کراچی نے اپنے ایک پیغام میں الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے قانونی مہاجرین کو بھی تنگ اور گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے محمود جان بابر بتاتے ہیں کہ اس بات میں مکمل صداقت نہیں۔ پولیس توآئے روز اپنے مشکوک شہریوں کو بھی گرفتار کرتی ہے ۔ بعدازاں تحقیقات کے بعد انہیں رہا کردیا جاتا ہے۔قانونی مہاجرین کی گرفتاری کے حوالے کوئی ایسی شکایت موجود نہیں’۔
کوئی بھی ملک غیر قانونی مہاجرین قبول نہیں کرتا۔ جولائی 2023 میں امریکہ نے غیر قانونی داخلے پر 100 افغان مہاجرین کو نکالا ہے۔ اکتوبر 2022 میں دہلی پولیس نے 200 افغان مہاجرین بشمول خواتین اور بچوں کو گرفتار کیا۔ ایران نے رواں سال 90,000 کے قریب افغان شہریوں کو ملک بدر کیا۔ اسی طرح ترکیہ نے 3000 کو ملک بدر کیا ہے۔ اس لیے پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیر قانونی مہاجرین کو واپس بھیجیں۔
محمود جان بابر نے مزید کہا کہ غیر قانونی طور پر رہائش پذیر لوگوں کا جرائم میں ملوث ہونا آسان ہوتاہے۔ وہ کسی بھی وقت جرم کرکے کسی اور جگہ منتقل ہوسکتے ہیں۔ افغانستان میں امارت اسلامیہ کے قیام کے بعد چمن بارڈر سے لاکھوں لوگ پاکستان داخل ہوئے۔ ان لوگوں کا کوئی علم نہیں کہ کہاں آباد ہوئے۔
‘ اس لیے غیر قانونی لوگوں کو نکالنے میں کوئی بری بات نہیں۔ سالمیت کسی بھی ملک کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ کوئی بھی ملک نہیں چاہتا کہ وہ غیر قانونی طور پر آبادکاری کرکے جرائم کو بڑھنے کا موقع دیں’
انہوں نے موجودہ حکومتی پالیسی کے متعلق کہا کہ 4 دہائیوں تک پاکستان نے افغان مہاجرین کی میزبانی کی۔ انہیں رہنے کے لیے جگہ دی۔ آج اگر محض غیر قانونی مہاجرین کو نکالا جا رہا ہے تو اس کی متعدد وجوہات ہیں ۔ اس سے پہلے کہ قانونی طور پر پاکستان ایکشن لیں، تمام غیر قانونی افراد کو رضاکارانہ طور پر واپس چلے جانا چاہیے اور یہ سب کچھ ایک واضح پالیسی کے تحت ہونا چاہیے ۔ تاکہ نفرت جنم نہ لیں اور خوش اسلوبی سے معاملات منطقی انجام تک پہنچ جائے۔