turky-urdu-logo

ایران اپنے ایٹمی سائنسدان کے قتل کا بدلہ کیسے لے گا؟

ایران کی حکومت نے اپنے نیوکلیئر سائنسدان کے قتل کا "سخت بدلہ” لینے کا اعلان کیا ہے۔ ایرانی نیوکلیئر سائنسدان محسن فخری زادے جمعہ کو تہران کے قریب ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔

محسن فخری زادے ایران کی وزارت دفاع کی نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے ادارے کے سربراہ تھے۔ مغربی اور اسرائیلی انٹیلی جنس کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتے تھے کیونکہ انہوں نے ایران کے ملٹری نیوکلیئر پروگرام کو بام عروج پر پہنچایا تھا۔

ایران نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے محسن فخری زادے کے قتل کا الزام اسرائیل پر لگایا ہے۔ اسرائیل جو امریکہ کا خطے میں سب سے بڑا اتحادی ہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران کو زیادہ سے زیادہ دباوٗ میں رکھنے کی پالیسی کی حمایت کرتا رہا ہے۔

ابھی تک کسی نے بھی فخری زادے کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

اقوام متحدہ اور یورپی ممالک نے اس معاملے پر ایران کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ جنوری میں صدر ٹرمپ اپنے صدارتی اختیارات نئے منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ کی سخت پالیسیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف نے کہا ہے کہ "یہ ایک شرمناک عمل ہے کہ اقوام متحدہ اور یورپ بجائے دہشت گردی کے خلاف ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کے ہمیں تحمل کا مشورہ دے رہے ہیں۔”

ایران کے صدارتی دفتر کے سینٹر فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سینئر تجزیہ کار دیاکو حسینی کہتے ہیں کہ مختصر مدت میں ایران کی طرف سے کسی فوجی حملے کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ فخری زادہ کے قتل کا بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ایران اس قتل کے دیگر پہلووں کا جائزہ لے رہا ہے اور عالمی سطح پر اس قتل کی قانونی جنگ لڑنے کو ترجیح دے گا۔

دیاکو حسینی کے مطابق محسن فخری زادے کے قتل کا سب سے بڑا سیاسی فائدہ اسرائیل کو ہوا ہے کیونکہ اسرائیل ٹرمپ انتظامیہ کی رخصتی سے قبل خطے میں تنازعہ کو ہوا دینا چاہتا ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ ایران اور امریکہ کو کھینچ پر میدان جنگ میں ایک دوسرے کے سامنے لے آئے۔ یہ پالیسی امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کے لئے کئی مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو اس قتل سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں پہنچے گا کیونکہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام کسی انفرادی شخص پر منحصر نہیں ہے۔ اس پروگرام میں کئی نوجوان سائنسدان موجود ہیں جو اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دیاکو حسینی نے اسرائیلی وزیراعظم کے حوالے سے کہا کہ "بنجمن نتن یاہو نے اسرائیل کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ اسرائیل اب تک ایران کے کئی نیوکلیئر سائنسدانوں کو قتل کر چکا ہے اور ایران کی سیکیورٹی اداروں کا حکومت پر شدید دباوٗ ہے کہ اس نفسیاتی جنگ میں توازن کے لئے بدلہ لینے کی اجازت دی جائے اس سے ایران کو سیاسی سطح پر بھی فائدہ پہنچے گا۔

پچھلی ایک دہائی میں ایران کے کئی نیوکلیئر سائنسدان قتل کئے گئے ہیں اور اسرائیل پر ان واقعات کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔

ایران بارہا عالمی برادری کو یہ بآور کروا چکا ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام پُرامن مقاصد کے لئے ہے۔

واشنگٹن کے کوئنسی انسٹی ٹیوٹ فار ریسپان سیبل اسٹیٹ کرافٹ کی ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ ٹریٹا پارسی کو یقین ہے کہ ایران فخری زادے کے قتل کا بدلہ فوجی حملے کی صورت میں لے گا لیکن ایران امریکی مفادات کو نشانہ نہیں بنائے گا۔ اگر ایران اسرائیلی مفادات پر حملہ کرتا ہے تو وہ مستقبل میں مزید تنازعے اور مشکلات سے بچنے کے لئے اس کی سختی سے تردید کر دے گا۔ پارسی کے مطابق ایرانی حکومت ابھی تک اس بدلے کے لئے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔

پارسی کے مطابق ایرانی صدر حسن روحانی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ جلد بازی میں ایسا کوئی ردعمل نہیں دیں گے جس سے ایران اسرائیل کی چال میں پھنس جائے۔

دوسری طرف ایرانی عوام میں یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ نیوکلیئر سائنسدانوں کے قتل کے واقعات صرف اس لئے بڑھ رہے ہیں کہ ایران نے ابھی تک جواب میں کوئی سخت ردعمل نہیں دیا ہے۔ جب تک ایران سخت جواب نہیں دے گا یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔

ٹریٹا پارسی نے کہا کہ ایران کے جواب کا انحصار اس بات پر ہے کہ اندرونی بحث کس نتیجے پر پہنچتی ہے اور مغربی ممالک سمیت امریکی نو منتخب صدر جو بائیڈن اس قتل پر کیا ردعمل دیتے ہیں۔

اگر بیرونی دنیا سے اس قتل کا کوئی سخت ردعمل سامنے نہ آیا تو ایران کو اندرونی سطح پر اس قتل کے سخت جواب کے مطالبات شدت اختیار کر جائیں گے۔

ابھی تک صدر ٹرمپ اور جو بائیڈن کی طرف سے براہ راست اس قتل پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم صدر ٹرمپ نے ایک اسرائیلی مصنف یوسی میلمین کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کیا ہے جس میں یوسی میلمین نے کہا کہ نیوکلیئر سائنسدان کا قتل ایران پر ایک نفسیاتی اور پیشہ ور دھچکا ہے۔

اس سال جنوری میں امریکی صدر ٹرمپ کے حکم پر بغداد میں ایران کی پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر سخت جواب کے وعدے کے بعد اب محسن فخری زادے کے قتل کا سخت جواب دینے کے مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔

ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے کئے تھے لیکن ان حملوں میں کوئی امریکی فوجی جاں بحق نہیں ہوا تاہم 100 کے قریب فوجیوں کو معمولی دماغی چوٹیں آئیں تھیں۔

بعد میں ایرانی حکومت نے کہا تھا کہ عراق سے امریکی فوج کا انخلا ہی دراصل جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا اصل جواب ہو گا۔

تہران میں مڈل ایسٹ اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سینئر تجزیہ کار عباس اسلانی کہتے ہیں محسن فخری زادے کے قتل کا بدلہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بدلے جیسا نہیں ہو گا کیونکہ دونوں قتل میں حالات مختلف ہیں۔

ابھی تک کسی نے بھی فخری زادے کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور ایران نے اس کا جواب دینے کے لئے کوئی وقت بھی مقرر نہیں کیا ہے۔ امید یہی ہے کہ ایران نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کا انتظار کرے گا۔ جو بائیڈن 20 جنوری 2021 میں اپنے عہدے کا حلف لیں گے۔

عباس اسلانی کے مطابق اگر ایران کا جواب اسرائیل کو ہی دینا ہے تو پھر اس کے لئے جو بائیڈن کے حلف کی تقریب کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔ اگر ایران اس قتل میں امریکہ کو بھی ملوث سمجھتا ہے تو پھر خطے میں امریکی مفادات کو خطرہ لاحق ہے۔ عباس اسلانی نے کہا کہ ایران کا جواب کے اثرات اسرائیل اور امریکہ کے علاوہ خطے میں عرب ممالک پر بھی پڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایران کے جواب کا ایک حصہ فوجی حملہ بھی ہو سکتا ہے تاہم ایران کی کوشش ہے کہ عالمی سطح پر یورپ، امریکہ اور بین الاقوامی اداروں پر سیاسی دباوٗ ڈالا جائے تاکہ اس قتل پر عالمی برادری سخت ردعمل کا اظہار کرے۔

محسن فخری زادے کے قتل سے ایک ہفتہ پہلے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران کے حریف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کا مقصد ایران پر دباوٗ بڑھانا تھا۔

امریکی میڈیا کئی بار کہہ چکا ہے کہ صدر ٹرمپ بھی ایران کے نتینز نیوکلیئر پلانٹ پر حملہ کرنے کی پلاننگ کرتے رہے ہیں۔

تہران کے ایک دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار حسین دلیرین نے کہا کہ انہیں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس قتل کے پیچھے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ ہے اور ایران اس کا بھرپور جواب دے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس قتل سے ایک بات واضح ہو گئی کہ موساد اب انٹلی جنس فیز سے آپریشنل فیز میں داخل ہو گئی ہے۔ دوسری طرف ایران بھی اپنے نیوکلیئر پروگرام کو آپریشنل فیز میں لے جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایران اس قتل کا بدلہ میزائل حملوں سے نہیں لے گا۔ اب ایران کو بھی اپنی حکمت عملی بدلنی ہو گی اور انٹلی جنس کی جنگ کو آپریشنل اور حملے کا جواب دینے کی صلاحیت کے فیز میں بدلنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ایران وقت اور جگہ کا تعین کر رہا ہے لیکن اس قتل کا بدلہ ہر صورت لیا جائے گا۔ ایرانی جواب کا دائرہ صرف مغربی ایشیا تک ہی محدود نہیں ہو گا۔ اس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔

Read Previous

مسلمان اپنے عقائد، زبان، نام اور لباس کی بنیاد پر ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں، صدر ایردوان

Read Next

ایران ابھی صرف سخت بدلہ لینے جیسے بیانات سے ہی کام چلائے گا، سی این این کا تجزیہ

Leave a Reply