ترکیہ کا سفر ۔۔۔ چند ناقابل فراموش واقعات

تحریر:عبدالشکور ،نائب صدر الخدمت فاؤنڈیشن

سیسز لک، سیسز لک ، سیسز لک !!!! ایک شخص نے بلند آواز سے یہ الفاط دہرائے اور یک دم سے سینکڑوں کے ہجوم میں چلتی ہوئی گاڑیوں نے بریک لگا کر انجن بند کرلیے، موبائل فون پر کال سننے والوں نے کال کاٹ دی ، جنریٹر والے نے جنریٹر بند کردیا۔ پیدل چلنے والوں کے قدم جم گئے۔ کرین چلانے والے نے انجن کی پاور سپلائی منقطع کردی اور پورا منظر ایسے ہوگیا کہ جیسے یہاں صدیوں سے کوئی موجود نہ ہوں۔ میں نے بھی لوگوں کی دیکھا دیکھی خاموشی اختیا ر کی اور اپنے اطراف میں نظر دہرائی تو سب لوگوں کی نظریں سامنے والی بلڈنگ کے ملبے میں کام کرنے والے اہلکاروں کی طرف مرکوز تھی۔ ان اہلکاروں کو کام کے دوران ملبے کے نیچے سے زندگی کے کوئی آثار محسوس ہوئے تھے ۔ جس کی وجہ سے ایک شخص کی آواز پر یہ پورا مجمع سکوت اختیا ر کرگیا تھا۔ اور بہت سے لوگ تو آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے اس زندگی کے لیے دعا بھی کرنے لگ پڑے جسے شاید آج ملبے کے نیچے دبے ہوئے ساتواں دن تھا۔ یہ وہ پہلا رقت انگیز منظر تھا جو میرے دل ودماغ میں نقش ہوگیا۔

مورخہ 10 فروری کی صبح الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کا 47 رکنی وفد اپنے ترک بہن بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے پاکستان سے ترکی کے شہر آدیمان میں پہنچا۔ ہمارے وفد میں بہت سے لوگوں کا یہ پہلا انٹرنیشل دورہ تھا۔ مقامی حالات، زبان اور جغرافیہ سے لاعلمی کی وجہ سے دشواری کا بھی بخوبی اندازہ تھا۔ مسلسل سفر کی تھکاوٹ کے باوجود جیسے ہی ہم نے اپنا پڑاؤ آدیامان کی گورنر ہاوس بلڈنگ میں ڈالا تو وہاں پر موجود مختلف ممالک کی سرچ اینڈ ریسکیو ٹیموں کو بھاگ ڈور کرتے دیکھ کر ساری تھکاوٹ دھری کی دھری رہ گئی۔ رات بھر کے سفر کے باوجود اللصبح ہماری ٹیم شہر کے اطراف میں زلزلے سے متاثرہ عمارتوں میں سرچ اینڈ ریسکیو کے لئے فیلڈ میں چلی گئی۔

میرا موضوع یہاں پر زلزلے سے متاثرہ عمارتوں اور انسانی جانوں کا اعداد و شمار ہرگز نہیں ہے اس کے لیے انٹرنیٹ پر بے تحاشا مواد موجود ہے۔ میں یہاں مختصراً ترک قوم کے چند باکمال ،قابل تعریف اور قابل تقلید پہلوؤں کا ذکر کروں گا جن کو پڑھ کر یقناً آپ کو ایک عظیم قوم کے وصف سے آشنائی ملے گی۔ آدیامان کا شہر ترکیہ کے سب سے متاثرہ شہروں میں سے ایک تھا۔ شہر کی 40 ہزار سے زائد عمارتیں زمین بوس ہوچکی تھی اور جو عمارتیں قائم تھی وہ بالکل بھی رہنے کے قابل نہیں تھی۔ البتہ ایک قابل غور بات یہ تھی کہ شہر کی بیشتر سرکاری عمارتیں اس شدت کے زلزے میں محفوظ رہی تھی۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سرکار کی سرپرستی میں بننے والے پراجیکٹس میں کوئی ہیرا پھیری نہیں ہوئی ہو گی۔ امدادی ٹیموں کے لیے جگہ جگہ مفت فوڈ سٹالز لگے ہوئے تھے ۔ جن پر بس غیرملکی ٹیموں کا رش ہی دیکھنے کو ملتا تھا ۔ دو ، تین جگہوں سے مختلف اوقات میں کھانا کھاتے ہوئے محسوس ہوا کہ پتہ تو لگایا جائے کہ یہ سٹالز گورنمنٹ کی جانب سے لگائے گئے ہیں یا پھر کسی خاص سرکاری محکمہ کی جانب سے ہیں ۔ چائے اور بسکٹ کے ایک سٹال پر میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ سٹالز کس کی جانب سے لگایا گیا ہے ۔ اس شخص نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ میں نے خود لگایا ہوا ہے ۔ میں نے اگلا سوال پوچھا کہ آپ کس شہر سے آئے ہیں ۔ اس شخص نے جواب دیا کہ یہ میرا ہی شہر ہے۔ میں نے پھر پوچھا کہ کیا آپ کا گھر اس زلزلے میں محفوظ رہا؟ اس شخص نے آسمان کی طرف نظریں بلند کی اور کہاکہ وہ سامنے ملبہ کا جو ڈھیڑ نظر آ رہا ہے وہ میرا ہی گھر تھا۔ ۔۔۔ اللہ ہو اکبر

مشن کے اگلے روز ہماری ٹیم کا ایک ایسی بلڈنگ میں آپریشن کرنے کا اتفاق ہوا جس میں امدادی ٹیمیں آخری میت کو نکالنے کی جدو جہد کر رہی تھی۔ ہماری ٹیم کے اہلکاروں نے بھی مقامی ٹیم کے ساتھ مل کر آپریشن کو تیز کیا۔ اور ملبے سے ایک بزرگ شخص کی میت کو نکال لیا۔ میت کے نکلنے پر اس کے لواحقین میں صرف دو بیٹے زندہ موجود تھے جو غالباً اس آفت کے روز اپنے شہر میں موجود نہ تھے۔ بیٹوں کا دکھ درد باٹنے والے محلہ دار، بہن بھائی اور دیگر رشتہ دار بھی اس حادثہ کا شکار ہوچکے تھے۔ اس وقت ان بیٹوں کے دکھ باٹنے اور گلے لگا کر حوصلہ دینے کا شرف الخدمت کے رضاکاروں کو ملا۔ جنہوں نے بعد از میت کی نماز جنازہ کا اہتما م بھی کیا۔ شہر کی تمام متاثرہ عمارتوں کے باہر لواحقین کا ایک ہجوم ہر وقت موجود رہتا تھا ۔ جو صبح سے شام اور شام سے رات گئےتک اس آس اور امید کے ساتھ بیٹھے رہتے تھے کہ شاید ان کے کسی پیارے کی جان ابھی سلامت ہوں اور وہ اس ملبے کے نیچے ہماری مدد کا انتظار کر رہاہوں ۔ موسم کی شدت رات کو منفی درجہ حرارت تک پہنچ جاتی تھی ۔ ایسے میں رات کے وقت جگہ جگہ آگ کی انگیٹھیاں نظر آتی تھی۔ دن کے اوقات میں پتہ نہیں کونسا فرشتہ چپ چاپ سے آتا تھا اور جگہ جگہ پر خشک لکڑیوں کے ڈھیڑ لگا جاتا تھا جو بعداز رات کے وقت لوگوں کے لیے ایندھن کے کام آتی تھی۔

زلزلے سے متاثرہ تما م علاقوں کے لیے ترک گورنمنٹ کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ گورنمنٹ تباہ شدہ مکانات کی تعمیر خود کروائے گی اور جو لوگ بے گھر ہوگئے ہیں وہ دوسرے شہروں میں جا کر پناہ لے لیں ان کا کرایہ بھی گورنمنت کی ذمہ داری ہو گا۔ میرے دل میں ایک لمحے کے لیے خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ گورنمنٹ نے جذبات میں آکر یہ سیاسی بیان دے دیا ہو اور اتنا بڑانقصان یہ گورنمنٹ کیسے پورا کرے گی ۔ اس جواب کی تسلی کے لیے میں نے دو سے تین مختلف مقامی افراد سے اس سرکاری بیا نیہ کے بارے میں پوچھا اور ان کے مطمئن جواب نے مجھے لا جواب کر دیا۔ گورنمنٹ کے نظم وضبط کی ایک شاندار مثال ہمیں حتائے (زلزلے سے متاثرہ شہر) جاتے ہوئے دیکھنے کو ملی۔ شہر میں داخلے کے وقت ایک پل زلزلے سے کافی متاثرہ ہواتھا جس کی وجہ سے وہاں ٹریفک کا بہاؤ کافی سست روی کا شکار تھا اور ایک روز بعد ہم جیسے ہی اس پل سے دوبارہ گزرے تو وہ پل مرمت کے بعد مکمل بحال کردیا جاچکا تھا۔

ترک قوم ایک مضبوط اعصاب اور انتہائی صابروشاکر قوم ہے۔ اتنی بڑی تباہی کے باوجود میں نے کسی شخص کو گلہ شکوہ کرتے نہیں دیکھا ،متاثرین کو قطاروں میں لگ کر امدادی سامان اکٹھا کرتے نہیں دیکھا۔ بلکہ جس کی جتنی ضرورت ہوتی تھی وہ بس اتنا ہی لیتا اور اپنے اگلے بھائی کوموقع دیتا۔ ان لوگوں نے الخدمت سمیت تمام بین الاقوامی ٹیمیوں کو شاندار پروٹوکول دیا۔ ترکش ائیر لائن نے دنیا بھر کی سرچ اینڈ ریسکیو ٹیمیوں کو بلا معاوضہ اپنے ملک میں لانے کا بندوبست کیا اور اپنے تمام ائیر پورٹس پر ڈیجیٹل سکرین پر تمام قوموں کے ان ہیروز کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اور آخر میں اپنے سفر کی روداد کو ترک بچے کہ اس بیان پر اختتام پذیر کروں گا کہ جب اس بچے سے پوچھا گیا کہ آپ اس زلزلے کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔

وہ باہمت بچہ بولاکہ
"یہ سب اللہ کی طرف سے آزمائش ہے اور اللہ ہی ہمارے نقصان کا ازالہ کرے گا۔ میں آپ سب کا میرے ملک کے لیے مدد کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ سب کے لیے دعا گو ہوں”

Read Previous

ٹوکیو ترکیہ میں سب سے بڑے بیرونی  طبی مشن کی قیادت کررہا ہے، جاپانی وزارت خارجہ

Read Next

مسیمو 2023 کی تقسیم انعامات کی پروقار تقریب

Leave a Reply