turky-urdu-logo

الشیخ محمد امین سراجؒ، ترکوں کی اسلامی شناخت کے امین

تحریر : ڈاکٹر عالم خان

خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد  ترکی کو جمہوریت کے نام پر ایک سیکولر سٹیٹ بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے تھے کوشش یہ تھی کہ اسلام صرف شناخت کی حد تک رہے باقی اس کا اصل تصور عثمانیوں کے ذہنوں سے نکال دیا جائے۔

اس ہدف کی تکمیل کے لیے عربی رسم الخط، عربی میں اذان، اور اسلامی علوم پر پابندی لگا دی گئی  ۔  جس کے باعث اسلام پسند لوگ انفرادی طور پر  ہی اپنے بچوں کی اسلامی تربیت کا بندوبست کرنے لگے  اور ان کو قرآن کریم، عربی رسم الخط اور علم فقہ سے روشناس کرانے کی کوشش  کرتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ مغرب کافی محنت کے باوجود ترکوں کے لباس، پوشاک اور ثقافت کی تبدیلی میں کسی حد تک کامیاب رہا لیکن ان کے باطن کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا ۔ جس کی وجہ سے عثمانیوں کی  اولاد میں وقتا فوقتا ایسی انقلابی چنگاریاں پیدا ہوتیں  رہتی جو مغرب کے  خوابوں کو چکنا چور کرنے کا باعث بن جاتیں ۔ اور جس قوم کو وہ مرد بیمار سے تعبیر کرتے تھے آج ایک بار پھر توانا اور صحت مند  معاشرے کے طور پر ابھر رہی ہے ۔

اسلامی علوم کے حصول پر پابندی کی صعوبتوں کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان دنوں والدین کو صرف اسی وجہ سے پابند سلاسل کیا جاتا تھا کہ آپ نے بچوں کو قرآن یا عربی زبان کی تعلیم دی ہے اُس دور میں "طوقت "کی سر زمین پر ایک مرد مجاہد حافظ مصطفی افندی کو بھی اسی جرم کی پاداش میں زندان بھیج دیا گیا تھا کہ اس نے اپنے ایک چھوٹے بچے "محمد امین سراج ” کو  قرآن اور عربی زبان پڑھایا تھا لیکن وہ استقامت کا پہاڑ تھے وہ جیل کے کالی کوٹھریوں کے خوف سے اپنے بیٹے کی اسلامی تعلیم وتربیت سے پیچھے نہیں ہٹے اور اپنے بیٹے کو آبائی شہر "طوقت "سے مرزیفون اور پھر استنبول بھیجا تاکہ وہ علم دین حاصل کرکے انبیاء کا وارث بنے۔

استنبول اس وقت ان اہل علم کا مرکز تھا جو  سرکاری عتاب کے باوجود ،خفیہ طریقے سے قرآن وسنت اور علم فقہ کی خدمت کرتے تھے ۔محمد أمین سراج انہی کی زیر تربیت رہے اور الشیخ فرحت ریزوی ؒ اور الشیخ سلیمان افندی سے علم حدیث میں سند اجازہ حاصل کیا لیکن علم کی تشنگی پوری نہیں ہوئی اور 1950 میں مصر ہجرت کر گئے جہاں الشیخ زاہد الکوثری ؒ کے حلقہ تلمذ کا شرف حاصل کرکے عالم اسلام کی مشہور یونیورسٹی جامعہ ازہر سے القضاء الشرعی میں تخصص کیا تھا۔

اگرچہ 1949 میں ترکی میں اسلامی علوم کو پڑھنے پڑھانے کی قانونی اجازت مل گئی تھی اور انقرہ یونیورسٹی میں پہلی فیکلٹی آف اسلامک سٹڈیز کا افتتاح بھی کیا گیا تھا لیکن 1958 میں جب محمد امین سراج وطن واپس ہوئے تو کسی ذاتی مدرسہ یا ادارہ بنانے کے بجائے آپ نے مسجد سلطان الفاتح استنبول میں علم کا سراج روشن کیا ۔ الشیخ امین فجر کے نماز کے بعد تفسیر بیضاوی، صحیح بخاری، نور الایضاح، قدوری، ھدایہ، إحیاء علوم الدین اور قاضی عیاض ؒ کی کتاب الشفا پڑھاتے تھے جس میں ترکی کے شرق وغرب سے ہزاروں پتنگان دین اور تشنگان علوم شرعیہ شرکت کرتے تھے اور شیخ ؒ سے مستفید ہوتے تھے ۔

جامع سلطان الفاتح کے اس نوجوان مدرس کو آج دنیا الشیخ محمد امین سراجؒ کے نام سے جانتی ہے جو ایک مشنری سوچ کا مالک تھے وہ علم وعمل کے ذریعے انقلاب کے قائل تھے اور علوم شرعیہ کو ترکوں کی حقیقی میراث سمجھتے تھے عربی زبان کے  ماہر تھے ، انہوں نے سینکڑوں عربی کتابوں کا ترکش زبان میں ترجمہ کیا ہے جن میں سید قطب شہید کی تفیسر فی ظلال القرآن نمایاں ہے۔

الشیخ محمد امین سراجؒ  عالم اسلام کے ان علماء میں سے ایک تھے جو ارض فلسطین کو  امت کی اجتماعی امانت سمجھتے تھے اور اس پر کسی بھی مفاہمت کے قائل نہیں تھے۔  وہ اپنی  تقریر وتحریر سے امت کے جوانوں کو بیداری کا درس  دیتے اور  پوری جرات سے فلسطین کا مقدمہ لڑتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1989 میں عالم اسلام کے جن نامور اہل علم نے فتوی جاری کیا کہ فلسطین کی ایک انچ زمین سے بھی دستبرداری حرام ہے تو ان میں سے ایک الشیخ محمد امین سراج ہی تھے۔

گزشتہ جمعہ کے دن علم و عرفان کا یہ باب بند ہوا اور ترکی کا ایک اور عالم مجاہد الشیخ محمد امین سراج اللہ کو پیارا ہوا جس کے وفات پر ترکی میں ہر آنکھ اشکبار ہے ۔ صدر رجب طیب اردوغان، نائب صدر فواد اوقطای اور سپیکر قومی اسمبلی مصطفی شنطوپ تک نے اپنے تعزیتی بیانات جاری کرتے ہوئے  الشیخ محمد امین سراج کی خدمات جلیلہ کو سراہا ہے جو اس کی گواہی ہے کہ رجال علم کے فقدان کے اس دور میں الشیخ محمد امین سراج  کی وفات ترک قوم کے لیے بالخصوص اور امت مسلمہ کے لیے بالعموم عظیم سانحہ سے کم نہیں۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
alam.khan@turkeyurdu.com

Read Previous

ترکی میں کورونا وائرس کی صور تحال

Read Next

پالتو کتے کی موت کا غم:ترک ریٹائرڈ ملازم نے آوارہ جانوروں کی دیکھ بھال کا بیڑا اٹھا لیا

Leave a Reply