turky-urdu-logo

خود کو منوانے کے لیے افغان طالبان میدان عمل میں

رپورٹ: شبیر احمد

امارت اسلامیہ افغانستان کے قیام کو تین سال مکمل ہونے کو ہیں۔ اب تک معاشی استحکام کے علاوہ امن و امان کے قیام کوافغان طالبان کی بڑی کامیابی سمجھا جارہا ہے۔جہاں ایک جانب متعدد ممالک کے ساتھ افغان حکومت کے رابطے بحال ہوئے وہیں کوئی بھی ملک تاحال امارت اسلامیہ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ چین وہ واحد ملک ہے جس نے افغانستان میں اپنا مستقل سفیر تعینات کیا ہے اور بدلے میں طالبان کے سفیر کو چین میں کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔

دوسری جانب دیگر ممالک کےسفیر اور ناظم الامور بھی افغانستان میں محدود ضابطہ کے تحت کام کر رہے ہیں۔ چین سمیت تمام ممالک نے امارت اسلامیہ کو تسلیم کرنا دنیا کے اکثریتی فیصلے کے ساتھ مشروط کردیا ہے۔سفارتی تعلقات کو پروان چڑھانے کے لیے اقوام متحدہ بحیثیت ادارہ اور مختلف ممالک افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے بھی مقرر کرتے ہیں۔ 18 اور 19 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اقوام متحدہ نے ان میں سے 25 ممالک کے خصوصی نمائندوں پر مشتمل دوروزہ کانفرنس منعقد کی۔

اس کانفرنس میں یورپی ممالک، امریکہ، عرب ممالک اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک ایران، پاکستان اور چین کے خصوصی نمائندوں کے علاوہ متعدد افغان شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے اس کانفرنس کی صدارت کی۔ اقوام متحدہ کے اراکین بھی اس اجلاس کا حصہ تھے۔اس اجلاس میں افغانستان سے متعلق 2 نکات پر بحث ایجنڈے کا حصہ تھی۔ پہلا نکتہ افغان طالبان کی جانب سے خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندی ہے۔

انتونیو گوتریس نے کہا اس نکتے پر کانفرنس کے شرکاء کے درمیان اتفاق پایا گیا کہ ان پابندیوں کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ دوسرا نکتہ اقوام متحدہ کی جانب سے خصوصی ایلچی کی تعیناتی تھی۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی تعیناتی کے حوالے سے دوحہ میں طالبان سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے واضح کیا ہے کہ وہ اس تعیناتی کو منظور نہیں کریں گے۔

سہیل شاہین نے خدشہ ظاہر کیا کہ نیا ایلچی افغانستان پر اپنے مخصوص فیصلے نافذ کرےگا۔دوسری جانب امارت اسلامیہ افغانستان کی جانب سے دوحہ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہونے والی اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ انتونیو گوتریس کہتے ہیں کہ ‘ مجھے طالبان کی طرف سےایک خط موصول ہوا جس میں اس میٹنگ میں شرکت کے لیے کچھ شرائط تھیں جو قابل قبول نہیں تھیں’۔

افغان طالبان کی شرائط کیا تھیں؟
افغان طالبان کی طرف سے رکھے گئے مخصوص شرائط جاننے کے لیےہم نے امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ترکیہ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’ہماری طرف سے شرکت کے لیے دو شرائط رکھی گئی تھیں۔ ایک امارت اسلامیہ کو افغانستان اور افغان عوام کے واحد نمائندے کی حیثیت سے مدعو کیا جائے، دوسرا جزوی اور فروعی مسائل کی بجائے بڑے مسائل کوایجنڈے کا حصہ اور موضوع بحث بنایا جائے۔ تاہم، ان کو ان شرائط کے ساتھ ہماری شرکت منظور نہیں تھی’۔

افغان طالبان کو اقوام متحدہ کی نئی نمائندہ خصوصی منظور کیوں نہیں؟
ذبیح اللہ مجاہد نے اقوام متحدہ کی نئی نمائندہ خصوصی کو افغانستان کے لیے غیر موزوں اور غیر ضروری قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اضافی خصوصی نمائندے جنگ یا بحران کی صورت میں تعینات ہوتے ہیں۔ افغانستان کو اس وقت ان میں کسی ایک کا بھی سامنا نہیں ہے۔لہذہ، ہم اس کےلیے تیار نہیں ہیں’
دوسری جانب انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ ‘ اس بارے میں طالبان کے ساتھ واضح مشاورت کی ضرورت ہے کہ سفیر کا کردار کیا ہو گا اور وہ کون ہو سکتا ہے،تاکہ ان کے نقطہ نظر سے اس تجویز کو قابل عمل بنا یا جا سکے’۔

افغان طالبان کے نزدیک اس کا کیا حل ہے؟
افغان طالبان کے موقف میں اس وقت نرمی کا امکان موجود نہیں ہے۔ وہ خواتین سے متعلق مسائل کو افغانستان کا اندرونی مسئلہ گردانتے ہیں اور اس سے متعلق کسی مشاورت کے لیے تا حال تیار نہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ دنیا کے ساتھ روابط کے خواہاں ہیں، دنیا بھی ہماری حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئےہمیں واحد نمائندے کے طور پر تسلیم کرے۔

Read Previous

ترکیہ کے ففتھ جنریشن جنگی جہاز قان کی پہلی پرواز

Read Next

پاکستان کا آذربائیجان کے ساتھ تاریخ کا بڑا دفاعی معاہدہ

Leave a Reply