
رپورٹ (شبیر احمد)
منگل کے روز افغان وزارت برائے امر باالمعروف ونہی عن المنکر کے ایک محتسب نے ڈرائیور کو بھرے بازار میں تھپڑ رسید کیا۔ معاملہ جب وزیر برائے امر باالمعروف و نہی عن المنکر شیخ محمد خالد حنفی تک پہنچ گیا تو انہوں نے دونوں کو بلا کر سامنے بٹھا دیا۔ محمد خالد حنفی نے ڈرائیور سے کہا کہ محتسب کو تپھڑ رسید کرکے بدلہ لو۔ ڈرائیور نے انکار کرتے ہوئے متعلقہ محتسب کو معاف کردیا اور یوں دونوں بغلگیر ہوئے۔ تاہم معافی تلافی کے باوجود شیخ محمد خالد نے ڈرائیور کی مالی معاونت کی اور محتسب کو اپنے عہدے سے برطرف کردیا۔
افغانستان سمیت دنیا بھر میں افغان حکام کے اس رویے کو سراہا جا رہا ہے۔ترجمان وزارت امر باالمعروف و نہی عن المنکر محمد صادق عاکف نے معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ عوام کی عزت اور تحقیر پر کوئی سمجھوتہ نہیں ، اسی اصول کے تحت ایک محتسب کو اپنے منصب سے ہٹا دیا گیا ہے۔انہوں نے تھپڑ کے پیچھے کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ ڈرائیور خواتین کے لیے مختص جگہوں پر مردوں کو بھی اجازت دیتا تھا۔ منع کرنے کے باوجود جب وہ اس عمل سے باز نہیں آیا تو ایک محتسب کی جانب سے اس سے سخت سلوک کیا گیا۔بعد ازاں وزیر شیخ محمد خالد نے دونوں کو بلاکر مصلحت کی راہ اختیار کی۔
افغان حکام کے اس رویے کے پیچھے سپریم لیڈر کا حکم کونساہے؟
گزشتہ روز حکومت افغانستان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخوند نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایک حکم نامہ جاری کیا۔ انہوں نے اپنے حکم نامے میں ملک کے تمام اداروں کے سربراہاں کو احترام انسانیت کا خصوصی حکم دیا۔ انہوں نے اپنے فرمان میں کہا کہ تمام اداریں شکایت کنندان کے لیے دروازے کھلے رکھیں۔
حکم نامے کی دفعات کے مطابق وزارتیں، مستقل محکمے، سپریم کورٹ، عدالتیں، صوبائی محکمے، پولیس سربراہان، اضلاع اور دیگر سرکاری اداروں کے اہل کار متعلقہ وزارتوں اور اداروں کے حکام شکایت کنندوں کی شکایات قبول کرنے کے ذمہ دار ہیں، تاکہ وہ اپنے مسائل براہ راست حکام کے سامنے پیش کرسکیں۔ اگر حکام کے پاس سرکاری مصروفیات کی وجہ سے شکایت کنندہ افراد کی شکایات سننے کےلیے مناسب وقت نہ ہو تو اس کام کی انجام دہی کےلیے ایک نمائندہ مقرر کریں۔