turky-urdu-logo

رکے گا اب یہ سیل رواں کیونکر۔۔۔“امریکہ کے طلبہ اور نوجوانوں کی اسرائیل مخالف تحریک پر ایک سیر حاصل تبصرہ “

ڈاکٹر تصور اسلم بُھٹّہ

امریکہ یونیورسٹیوں کا گڑھ ہے ۔ یہاں 439 یونیورسٹیاں ہیں ۔ اور یہی یونیورسٹیاں امریکہ کی ترقی کا راز ہیں ۔

کولمبیا یونیورسٹی امریکہ کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے اور اس کا آغاز 1754ء میں کنگز کالج کے طور پر مین ہٹن نیویارک میں ہوا ۔

1896 ء میں یہ اپنے موجودہ مقام مارننگ سائیڈ ہائٹیس Morningside Heights میں منتقل ہوئی اور اس کا نام کولمبیا یونیورسٹی رکھا گیا۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں اس کا نمبر سترہ ہے اور 2023 ء میں اس کا سالانہ بجٹ چھ بلین ڈالر کے لگ بھگ تھا۔

اس میں تقریباً سینتالیس ہزار طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں ۔ اس میں پڑھانے والے اساتذہ کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے ۔
اس یونیورسٹی کے الومینائی Alumni میں امریکہ کے سات بانی
(Founding Fathers),چار امریکی صدور ، چونتیس غیر ملکی سربراہان مملکت ، اقوام متحدہ کے دو سیکریڑی جنرل ، سپریم کورٹ کے دس جج ، ایک سو تین نوبل پرائز یافتہ افراد ، ترپین کھرب پتی Billionaire اور ایک سو پچیس قومی ایوارڈ یافتہ سائنسدان ، تئیس اولمپک ایوارڈ جیتنے والے ، تنتیس اکیڈمی ایوارڈ یافتہ اور دوسرے بے شمار بین الاقوامی شہرت کے حامل افراد شامل ہیں ۔

1776ء میں اس یونیورسٹی نے امریکی جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا ۔
ایٹم بم بنانے کا میدان ہو سائنسی تحقیق کی دوڑ ہو یا سیاسی میدان میں شعور اور آگہی پیدا کرنے کا مرحلہ ۔ کولمبیا یونیورسٹی نے ہر دور میں امریکہ کی ترقی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔

1968 ء کا موسم بہار آیا تو اس یونیورسٹی کے طلبہ کے علم میں یہ بات آئی کہ یونیورسٹی ویت نام کی جنگ میں ملوث ہے اور امریکی گورنمنٹ کی مدد کر رہی ہے ۔ جس پر طلبہ میں بے چینی پھیل گئی جس نے احتجاج کی صورت اختیار کر لی ۔ طلبہ نے یونیورسٹی کی عمارات پر قبضہ کرلیا۔ انتظامیہ نے پولیس بلا لی ۔ صورت حال بگڑ گئی ۔ پولیس اور طلبہ کے تصادم میں دونوں طرف کا نقصان ہوا ۔ اور پھر یہ احتجاج پورے ملک میں پھیل گیا ۔ امریکہ کی تمام یونیورسٹیاں تعلیمی ادارے اس کی زد میں آگئے ۔ جنگ مخالف آگہی اور شعور تعلیمی اداروں سے نکل کر شہروں میں پھیل گیا ، ملک کے گلی کوچوں میں ویت نام جنگ کی مخالفت ہونے لگی ۔ اور یوں امریکہ ویت نام سے اپنی فوجیں نکالنے پر مجبور ہوگیا۔
ستر سال تک اسرائیل نے امریکہ کے سہارے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کئے رکھا امریکہ اسرائیل کی رکھیل کا کردار ادا کرتا رہا ۔ لیکن اب لگتا ہے کہ تاریخ کا پہیہ ایک بار پھر الٹا گھومنا شروع ہوگیا ہے۔ غزہ کے ہزاروں بے گناہ مظلوموں

کا لہو سر چڑھ کر بولنا شروع ہو گیا ہے ۔ لاکھوں بھوکے پیاسے بچوں کی فریادیں اقوام عالم کے سوئے ضمیر پر دستک دینے لگی ہیں ۔
7 اکتوبر 2023ء کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں اسرائیلی فوج غزہ میں گھس گئی اور بے دریغ اور بلا تخصیص عورتوں اور بچوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ پچیس لاکھ انسانوں پر زندگی تنگ کر دی ۔ آسمان سے آگ برسانی شروع کر دی اور زمینی فوجی یلغار کے ذریعے لاکھوں بے بس اور نہتے فلسطینیوں کو در بدر کر دیا ۔ بچے بوڑھے خواتین دو وقت کی روٹی کی بھیک مانگنے لگے بیمار اور زخمی علاج کے لئے ترس گئے ۔ جس کے نتیجے میں ساری دنیا میں فلسطینیوں کے لئے ہمدردی کی ایک لہر دوڑ گئی ۔
کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ بھی ہمدردی کی اس لہر کی زد میں آ گئے ۔ اور یونیورسٹی میں احتجاج شروع ہو گیا ۔ جس کے نتیجے میں 12 اکتوبر کو یونیورسٹی بند کر دی گئی لیکن احتجاج جاری رہا۔

نومبر 2023ء کو یونیورسٹی انتظامیہ نے ایس جے پی (Students for ( Justice in Palestineاور جے وی پی (Jewish Voice for Peace) نامی دو طلبہ تنظیموں پر پابندی لگا دی ۔
لیکن وہ طلبہ احتجاج روکنے میں ناکام رہے ۔
دسمبر میں اس یونیورسٹی کے طلبہ نے ہیلری کلنٹن کے ایک بیان کے جواب میں کلاسز کا بائیکاٹ کیا اور ریلیاں نکالیں جس میں اس نے اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کی مخالفت کی تھی ۔
جنوری 2024ء میں یونیورسٹی کے یہودی اور اسرائیلی حمایئیتوں نے ان طلبہ پر مرچوں اور ایک گندی بدبو والے کیمیکل کا سپرے کیا۔ جو غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں ایک ریلی نکال رہے تھے ۔ جس پر طلبہ میں اشتعال پھیل گیا ۔
جس کی وجہ سے اسرائیل کے حمائتی طلبہ کا یونیورسٹی میں آنا مشکل ہوگیا ۔

نیویارک پولیس نے اس واقعہ کی تحقیق کی اور چند یہودی طلبہ اور آؤٹ سائڈرز کو گرفتار بھی کیا جنہوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا ۔
جنوری میں ہی ان طلبہ نے پرامن احتجاج کا ایک نیا رستہ ڈھونڈ نکالا انہوں نے یونیورسٹی کے مشرقی لان میں خیموں کا ایک شہر آباد کر لیا۔ سینکڑوں طلبہ ہاسٹل اور گھروں کی رہائش چھوڑ کر یہاں آباد ہو گئے ۔ اور ہر روز ان خیموں کی تعداد بڑھنے لگی ۔ وہ کیمپ جو دو تین خیموں سے شروع ہواتھا اب سینکڑوں خیموں پر مشتمل تھا ۔ خیموں کا یہ احتجاجی شہر اتنا بارونق ہو گیا کہ اب یہاں دن رات ایک میلہ سا لگا رہتا ۔ طلبہ احتجاج بھی کرتے اور موج ومستی بھی ۔

احتجاج کا یہ طریقہ اتنا مقبول ہوا کہ دیکھتے دیکھتے ہی امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں ایسے احتجاجی شہر آباد ہوگئے ۔ یہ سلسلہ پھیلنے لگا تو پہلی بار امریکہ کی زائیونسٹ لابی کو احساس ہوا کہ کھیل ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے ۔ انہوں نے امریکی گورنمنٹ کے ذریعے ان یونیورسٹیز کے سربراہان پر اس احتجاج کو ختم کرنے کے لئے دباؤ ڈالا اور جب ان تعلیمی اداروں کے سربراہوں نے پرامن طلبہ معاملات میں دخل دینے سے انکار کیا تو امریکہ کی دس سے زیادہ یونیورسٹیز کے سربراہ تبدیل کر دئیےگئے ۔
لیکن کولمبیا یونیورسٹی کی صدر نعمت مینوش شفیق Minouche Shafik کو برقرار رکھا گیا ۔ کیونکہ اس نے احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف سخت اقدام اٹھانے کی یقین دہانی کروائی تھی ۔ مینوش شفیق ایک مسلمان مصری نژاد امریکن ہے جو برطانوی شہریت بھی رکھتی ہے ۔
مینوش نے چار طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال دیا اور کئی سخت انتظامی اقدام بھی اٹھائے لیکن وہ اس تحریک کو دبانے میں ناکام رہی ۔
زائیونسٹ لابی کی بے چینی بڑھنے لگی ۔اس نے اپنا پورا اثر ورسوخ استعمال کیا ۔
17 اپریل کو صبح دس بجے امریکن سینٹ نے مینوش شفیق کو سینٹ میں طلب کیا اور وہاں اس کی خوب گوشمالی کی گئی ۔ جس پر اسی دن شام چار بجے مینوش نے نیویارک پولیس NYPD کو 1968 ء کے بعد پہلی مرتبہ کیمپیس میں داخلے کی اجازت دی اور پولیس نے زبردستی یہ خیمہ بستی اکھاڑ پھینکی اور مزاحمت کرنے والے طلبہ پر تشدد کیا اور اور ایک سو آٹھ طلبہ کو حراست میں لے لیا۔ جن میں امریکن سنیٹر الحان عمر کی بیٹی اسراء ہریسی بھی شامل تھی ۔ جس وقت پولیس ان مظاہرین کے خلاف ایکشن لے رہی تھی اس وقت 114th Street اور ایمسٹرڈیم ایونیو پر اسرائیل کے حامی امریکی جھنڈالہراتے ہوئے جشن منا رہے تھے ۔ گرفتار شدگان کو عدالت نے اگلے ہی دن رہا کر دیا ۔ اور انہوں نے واپس آکر اپنی بستی پھر آباد کر لی ۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ایک پریس ریلیز کے مطابق گرفتار کئے جانے والے سو سے زیادہ طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ہے ۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ریڈیو چینل WKCR-FM کے دفتر پر بھی تالا لگا دیا گیا ۔ کیونکہ وہ طلبہ کی احتجاجی خبریں نشر کر رہا تھا ۔
یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیا گیا اور طلبہ کو آن لائن لکچر لینے کی ہدایت کی گئی ۔ جو اکثر طلبہ نے احتجاجاً مسترد کر دی ۔
پولیس کی کیمپس میں داخلے ، طلبہ پر تشدد ، گرفتاری ، ان کے یونیورسٹی سے اخراج اور یونیورسٹی کی بندش کی خبر پھیلی تو امریکہ کی دوسری یونیورسٹیز بھی اس کی لپیٹ میں آگئیں ملک بھر کے طلبہ میں اشتعال پھیل گیا اوریوں یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی جن یونیورسٹیز کے طلبہ پہلے ان معاملات سے بے خبر اور دور تھے وہ بھی اس میں شامل ہو گئے ۔ اب ان دس دنوں میں یہ تحریک امریکہ کی پچیس سے زیادہ ریاستوں کی تقریباً ڈیڑھ سو یونیورسٹیز میں پھیل چکی ہے ۔
پانچ سو سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے ۔ لیکن حالات تیزی سے بگڑرہے ہیں ۔
اور معاملات ہاتھ سے نکلتے محسوس ہو رہے ہیں ۔ اٹلی ، فرانس ، برطانیہ اور یورپ کے کئی اور ممالک کی یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں ۔

آج حمزہ سربلند نے بتایا کہ آسٹریلیا میں یونیورسٹی آف کوئنزلینڈ بریسبین ، سڈنی یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف میلبورن میں بھی احتجاجی خیمہ بستیاں آباد ہوچکی ہیں ۔
پچھلے ہفتے دنیا بھر کی ان تمام خیمہ بستیوں میں خیر سگالی کے طور پر یہودیوں کا سالانہ تہوار عید فسح Passover منایا گیا ۔

Passover عید فسح
یہودیوں کی ایک سالانہ عید ہے جو سات دنوں تک منائی جاتی ہے، اس عید کا آغاز یہودی تقویم کے مطابق 15 اپریل سے ہوتا ہے۔ اس کو بعض مسیحی فرقے مثلاً کاتھولک بھی مناتے ہیں۔ فسح کو عید فطیر اور "بے خمیری روٹی” کی عیدبھی کہا جاتا ہے۔ یہ بنی اسرائیل کی فرعون کے قبضے سے رہائی کی یاد میں منائی جاتی ہے ۔ یہ تہوار عموماً بہار میں جوار کی کٹائی کے دنوں میں منایا جاتا ہےـ۔

ان طلبہ کا مطالبہ ہے کہ
⁃ امریکی یونیورسٹیاں اپنے عسکری ثقافتی ، تعلیمی اور معاشی تعلقات اس وقت تک اسرائیل سے منقطع کر لیں جب تک وہ فلسطینیوں پر ظلم وستم بند نہیں کرتا۔
⁃ امریکی حکومت اسرائیل کی مالی اور فوجی مدد فی الفور بند کرے
⁃ غزہ میں فوری طورپر جنگ بندی کی جائے
⁃ اسرائیل فلسطینیوں کے وجود کو تسلیم کرے اور علیحدہ سٹیٹ کا حق دے ۔

ان دس دنوں میں حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ کل نیویارک ٹائمز نے اپنے ایک مضمون کی شہہ سرخی میں لکھا۔
“What Columbia should have learned from the protests of 1968”

امریکہ کی صہیونی لابی ، امریکی گورنمنٹ اور اسرائیلی قیادت اب پریشانی اور بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتی ہے ۔
امریکی انتظامیہ کا ہر پرزہ اس احتجاج کو غیر قانونی ، غیر جمہوری ، غیر اخلاقی ، نسل پرست اور یہود مخالف ثابت کرنے پر لگاہے ۔
بلکہ کچھ نے تو اسے دہشت گردی سے بھی تشبیہہ دی ہے۔
دنیا بھر کا میڈیا اس احتجاج کی خبریں دبانے اور روکنے پر لگا ہے بہت کم معلومات سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچ رہی ہیں ۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو نے اسے اینٹی سمیٹک Antisemitic اورہٹلر کی باقیات کہہ کر پکارا ہے ۔ حالانکہ اس احتجاج میں امریکی یہودیوں کی کئی تنظیمیں جیسے جے وی پی (Jewish Voice for Peace)
جیسی یہودی تنظیمیں بھی اس احتجاج میں شامل ہیں ۔
سی یواے پی
Columbia University Apartheid Divest اور ڈی ایس اے
Democratic Socialists of America(DSA)
جو ان مظاہروں کا ایک اہم حصہ ہیں ان تنظیموں میں بھی امریکی یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے ۔

امریکی سینٹ کے سپیکر مائیک جانسن نے کولمبیا یونیورسٹی کی لو لائبریری Low Library کے سامنے تقریر کرتے ہوئے مظاہرین کی مذمت کی ، مینوش شفیق کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا اور امریکی صدر جو بائیڈن پر زور دیا کہ فوج کے ذریعے مظاہرین سے نپٹا جائے اس نے دعویٰ کرتے ہوئے یہ بے بنیاد الزام لگایا کہ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیلی شیر خوار بچوں کو اوون میں پکایا ۔
“infants were cooked in ovens”
اسرائیل کی حمایتی تنظیم سٹینڈ ود اَس StandWithUs نے کولمبیا یونیورسٹی کے باہر جلوس نکالا اور یونیورسٹی میں داخل ہونے کی کوشش کی ، مظاہرین کو کھلی دھمکیاں دیں اور انہیں ہراساں کیا۔
حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کوئی نہیں جانتا لیکن یہ بات اب اظہرمن الشمس ہے کہ
امریکہ کی زائیونسٹ لابی کو ستر سال میں پہلی بار امریکہ میں اپنے لئے زمین تنگ ہوتی محسوس ہو رہی ہے ۔
اسرائیل نے امریکہ اور یورپ کے مغربی معاشرے میں اپنے لئے ہمدردی کا جو نرم گوشہ اور مقام بڑی محنت اور خطیر سرمایہ کاری کے ذریعے پیدا کیا تھا وہ سب اس نوجوان نسل نے سوشل میڈیا سے ملنے والے شعور اور آگہی کی بدولت اپنے جوتوں کی نوک پر رکھ دیا ہے ۔
جھوٹی مظلومیت کا شاندار محل جسے بنانے میں یہودیوں کو ایک صدی لگی ان چھ مہینوں کی بربریت ظلم اور دہشت گردی کی بدولت مسمار ہوتا نظر آ رہا ہے ۔
ایک منصوبہ انسان بناتے ہیں اور ایک منصوبہ میرے رب کا ہوتا ہے اور بے شک میرا رب ہی
“خیرالماکرین “ہے ۔

Read Previous

ترک پارلیمنٹ کے اسپیکر کی نیلسن منڈیلا کے پوتے سے ملاقات

Read Next

نیتن یاہو موجودہ زمانے کا ہٹلر ہے جس کے ماتھے کا سیاہ داغ کبھی نہیں مٹے گا، صدر ایردوان

Leave a Reply