turky-urdu-logo

لیبیا کے معاملات میں تُرک مداخلت بڑھنے سے مصر آبزرور تک محدود ہو گیا

اقوام متحدہ کی لیبیا میں حمایت یافتہ حکومت نیشنل گورنمنٹ ایکورڈ کو تُرک حکومت کی سب سے زیادہ سپورٹ حاصل ہے۔ تُرک ڈرون کی مدد سے لیبیا اپنے دارالحکومت تریپولی کو لیبئن نیشنل آرمی سے خالی کرانے میں کامیاب ہوا ہے۔  

تُرک فوج اور ڈرون حملوں نے لیبیا میں جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ہے جس کے بعد مصر کی لیبیا کے معاملات میں حیثیت محض ایک آبزرور کی رہ گئی ہے۔

عرب ممالک میں “عرب سپرنگ” نے دہائیوں سے قابض کئی حکمرانوں کو اکھاڑ کر باہر پھینک دیا ہے۔ اب کئی حکمران بدلتے ہوئے حالات میں اپنے آپ کو زندہ رکھنے اور اقتدار کا حصہ بننے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

لیبیا کی خانہ جنگی اور مصر میں فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے اور ملک کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ 2013 میں الٹنے کے بعد عرب اسپرنگ کی دو اہم پروڈکٹ رہ گئیں ہیں۔ مصر لیبیا میں لیبئن نیشنل آرمی کے جنگجو کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ لیبئن نیشنل آرمی

کے خلیفہ ہفتار ایک نئے قذافی کی صورت میں ابھرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت خلیفہ ہفتار کے جنگجو اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ لیبیا کی حکومت کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ مصر کے موجودہ حکمران مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کے استحکام سے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصر لیبیا میں جنگجو خلیفہ ہفتار اور شام میں بشارالاسد کی حمایت کر رہا ہے۔

تُرکی کا مشرق وسطیٰ میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ مصر کو پریشان کر رہا ہے۔ تُرک جدید ڈرون ٹیکنالوجی نے لیبیا کی حکومت کو ایک ایسی مدد فراہم کی ہے جس سے یہاں سیاسی پانسہ پلٹ گیا ہے۔ دارالحکومت تریپولی پر جنگجو خلیفہ ہفتار کا قبضہ تھا جو تُرک ڈرون حملوں سے تباہ کر دیا اور خلیفہ ہفتار کو تریپولی سمیت اس کے 60 کلومیٹر کے علاقے کو خالی کرنا پڑا۔ یہ بات مصر کے سابق فوجی سربراہ اور موجودہ صدر عبدالفتح السیسی کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔

تُرک فوج اور تُرک ڈرون کی مدد سے لیبیا کی آئینی حکومت نے خلیفہ ہفتار سے اپنے علاقوں کا دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا شروع کر دیا ہے۔ مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات لیبیا کے جنگجووں کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ لیبیا میں اگر جمہوریت کامیاب ہوتی ہے تو ان کیلئے بڑا خطرہ بن جائے گا۔

Read Previous

فیس بک پر 150 سے زائد کمپنیوں کے ساتھ صارفین کا ڈیٹا شیئر کرنے کا الزام

Read Next

نائیجیریا: ‘پراسرار بیماری’ سے قریبا ایک ہزار افراد ہلاک

Leave a Reply