
امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ دراصل اسرائیل کی جانب سے پیش کیا گیا ہے اور اسے ثالثوں کے ذریعے حماس تک پہنچا دیا گیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ یہ جنگ ختم ہو، انھوں نے حماس پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ تنازع کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی نئی تجویز قبول کر لے۔
نیا مجوزہ منصوبہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے میں چھ ہفتے کی جنگ بندی کا اعلان کیا جائے گا۔ اس دوران اسرائیلی فوج غزہ کے آبادی والے علاقوں سے نکل جائے گی جبکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھیجی جانے والی امداد میں ’اضافہ‘ کیا جائے گا اور فلسطینی قیدیوں اور کچھ اسرائیلی یرغمالیوں کا تبادلہ بھی ہو گا۔
مجوزہ منصوبے کے دوسرے مرحلے میں فوجیوں سمیت تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد یہ جنگ بندی ’مستقل طور پر دشمنی کے خاتمے‘ کی بنیاد بنے گی۔
تجویز کے تیسرے مرحلے میں کسی بھی مقتول اسرائیلی یرغمالی کی باقیات کی واپسی کے ساتھ ساتھ غزہ میں گھروں، سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر نو کا ایک ’بڑا منصوبہ‘ شامل ہے۔
اپنے بیان میں صدر بائیڈن نے تسلیم کیا کہ اسرائیلی حکومت میں موجود کچھ حکام سمیت کچھ اسرائیلی ممکنہ طور پر اس مجوزہ معاہدے کے خلاف ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ میں نے اسرائیلی رہنماؤں کو اس معاہدے کی تائید کرنے کا کہا ہے چاہے انھیں کسی بھی قسم کے سیاسی دباؤ کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔
امریکی صدر نے اسرائیلی عوام سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہم یہ لمحہ نہیں کھو سکتے۔
اس دوران صدر بائیڈن کی جانب سے ایک اور اہم بات یہ بھی کی گئی کہ حماس کی صلاحیت کو اس حد تک نقصان پہنچایا جا چکا ہے کہ اب اس کے جنگجو دوبارہ سات اکتوبر کے طرز کا حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ ممکنہ طور پر اسرائیل کے لیے پیغام ہے کہ واشنگٹن کے مطابق یہ جنگ اب ختم ہو چکی ہے۔