صدر رجب طیب ایردوان نے امریکہ کی جانب سے قبرصی یونانی انتظامیہ پر اسلحہ کی پابندی کو ہٹانے کے فیصلے کو "ناقابلِ قبول” قرار دیا ہے۔
صدر ایردوان نے ترکیہ گرینڈ نیشنل اسمبلی کے نئے مقننہ سال کے افتتاحی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”مجھے یقین ہے کہ ہماری اسمبلی انتخابی کیلنڈر کے مطابق سرگرمیوں کی نگرانی کرنے سے پہلے بہت سے اہم ضابطے نافذ کر کے اس قانون ساز سال کا بہترین طریقے سے استعمال کرے گی۔”
دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ذکر کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ ترکیہ میں دہشت گردوں کی اب یہ آخری سانسیں ہے جس کا مظاہرہ یہ چھوٹی موٹی کاروائیوں کے ساتھ کرنے کی کوشش کر رہے ہے۔ ہم ہر لمحہ اپنی سیکورٹی فورسز کے ساتھ دہشت گردوں کی پشت پر سوار ہیں۔
حالیہ برسوں میں معیشت میں حاصل کی گئی ترقی کا حوالہ دیتے ہوئے، ایردوان نے کہا، "قوت خرید کی برابری کے مطابق، ترکیہ 2021 میں دنیا کی 11ویں بڑی معیشت اور یورپ کی چوتھی بڑی معیشت بن گیا ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ ترک ڈپلومیسی گزشتہ چند صدیوں کے اپنے کامیاب ترین دور سے گزر رہی ہے، ہمارے وطن کی کوششوں کے نتیجہ میں طے پانے والی اناج راہداری مطابقت، اپنی ساکھ کو کھونے والے اقوام متحدہ کی حالیہ برسوں میں حاصل کردہ عظیم ترین کامیابیوں میں سے ایک ہے۔
اپنے خطاب میں خارجہ پالیسیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدر نے اس بات پر زور دیا کہ جزائر کو اسلحہ اندوز کرنے والے یونان کی اس معاملے میں حوصلہ افزائی کرنا نہ تو ذی فہم ہے اور نہ ہی اتحادی نظریے سے ہم آہنگ ہے۔ "اشتعال انگیزی اور کشیدگی ہر مبنی سیاست کسی کے بھی حق میں نہیں ہوتی اور نہ ہی ہو گی۔ "
ترک صدر نے سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو کی رکنیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ کو دیے گئے وعدوں کی پاسداری کیے جانے تک ہم اس معاملے میں اپنے اصولی اور پر عزم موقف کو برقرار رکھیں گے۔
