
ترکی کی ریجنل پاور (خطے میں اس کی طاقت) سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خطے میں امن و استحکام اور خوشحالی ترکی کی مرہون منت ہے۔ یہ بات فرانس کے تاریخ دان اور سیاسی تجزیہ نگار میگزم گیون نے کہی ہے۔
فرانسیسی تاریخ دان انقرہ کے سینٹر فار یورشیئن اسٹڈیز کے سینئر ریسرچر نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہی۔ انہوں نے آرمینیا اور ترک فرانس تعلقات پر ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے۔
فرانسیسی تاریخ دان نے کہا کہ آرمینیا کے وزیراعظم پشینیان 2018 میں اقتدار میں آئے۔ اس سے پہلے آرمینیا میں 20 سال تک روسی حمایت یافتہ حکومت تھی جو نہ صرف کرپٹ تھی بلکہ اس کی گورنینس بھی اچھی نہیں تھی۔ ان حالات میں آرمینیا کی اشرافیہ کو کسی صورت پیشینیان کی حکومت ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آذربائیجان کے ہاتھوں بدترین شکست نے پشینیان پر مستعفی ہونے کے لئے دباؤ بڑھ گیا۔
آرمینیا کی اکثریت پشینیان کو آذربائیجان کے ہاتھوں شکست کا ذمہ دار سمجھتی ہے کیونکہ تیس سال سے جس علاقے پر آرمینیا نے قبضہ کیا ہوا تھا وہ اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔
فرانسیسی تاریخ دان نے کہا کہ مشرقی بحیرہ روم میں اسرائیل اور ترکی دو بڑی طاقتیں ہیں۔ خطے کے دیگر ممالک کو اب یہ بات اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ترکی کو کسی صورت مائنس نہیں کیا جا سکتا۔
شام پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے اور یہاں خانہ جنگی نے حالات بہت زیادہ خراب کر دیئے ہیں۔ لبنان ایک ناکام ریاست ہے۔ مصر کا تیل کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر انحصار ہے۔ اس کے بعد خطے میں صرف دو ہی طاقتیں بچتی ہیں ایک اسرائیل اور دوسری ترکی۔
انہوں نے کہا کہ یونان کسی بھی صورت میں خطے کی طاقت بننے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ یونان اپنی اوقات سے زیادہ اوپر اٹھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی معیشت زوال پذیر ہے۔ یونان میں نہ تو دفاعی صنعت ہے اور نہ ہی ٹیکنالوجی ہے۔ یونان کو صرف یورپین یونین کے ٹیکس گزاروں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے اور اب یورپی شہری بھی یونان کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک گئے ہیں۔
دوسری طرف ترک معیشت گو کہ ابھی بہت اچھی نہیں چل رہی ہے لیکن اس کا صنعتی اور برآمدی شعبہ کی کارکردگی بہت بہتر ہے۔
ترکی کی دفاعی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت انتہائی مضبوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور مغربی ممالک یونان سے زیادہ ترکی کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہی کچھ فرانس کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ ترکی کے ساتھ شدید اختلافات کے باوجود ترکی کے ساتھ اسے تعلقات بہتر بنانے ہی ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کی فنڈنگ سے مغربی ممالک میں ترکی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔