صدر ایردوان کا کہنا ہے کہ ترکیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمام رکاوٹوں کو کچل کر رکھ دیا ہے۔
دارالحکومت انقرہ میں ترک کنفیڈریشن آف ایمپلائر ایسوسی ایشنز کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مغرب کی حالت واضح ہے، لیکن ترکیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمام رکاوٹوں کو عبور کیا ہے۔

انہوں نے عین العرب خطے میں انقرہ کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر تنقید کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ نے اپنے بل بوتے پر دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا ہے۔
دہشت گرد تنظیمیں شام کے عین العرب، قمشلی، المالکیہ، دارباسیہ، الحسکہ، رقہ، دیر الزور اور منبج کے علاقوں سے ارکان کو بھرتی کرتی ہیں۔

ترکیہ کا مطالبہ ہے کہ دہشت گرد گروپ منبج سے نکل جائے، جس پر 2016 میں پی کے کے/ وائے پی جے نے قبضہ کیا تھا۔
پی کے کے کو ترکیہ ، امریکہ اور یورپی یونین نے ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر درج کیا ہے۔ گزشتہ 35 برس سے یہ دہشت گرد تنظیم خواتین، بچوں اور نوزائیدہ بچوں سمیت 40 ہزار سے زیادہ لوگوں کی موت کی ذمہ دار ہے۔

صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ ترکیہ اب ان (دہشت گردوں) کے لیے جہنم ہے ۔
انکا کہنا تھا کہ اگرچہ کچھ لوگ اسے مصنوعی بحرانوں میں گھسیٹنے اور اسے جھکانے کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر ترکیہ آج بھی عروج پر ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

ترکیہ اب سیاست، معیشت، سفارت کاری اور فوج میں اپنے فیصلے خود کرتا ہے، اور یہ اپنا بنیادی ڈھانچہ بھی خود بناتا ہے اور اپنے مقاصد کا تعین کرتا ہے۔
ایردوان کا کہنا تھا کہ ہماری تقدیر اب کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اب ہماری قوم ہماری تقدیر کا تعین کرتی ہے۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ترکیہ بلقان سے لے کر افریقہ تک، وسطی ایشیا سے لے کر جنوبی ایشیا تک اپنی چھاپ چھوڑ رہا ہے، صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ ان کا ملک سیاسی اور انسانی بحرانوں کے دوران اپنے ڈائیلاگز کے ذریعے غیر معقول تعلقات کی بجائے حقیقی تعلقات قائم کرنے کے قابل ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ترکیہ اپنے مستقبل کو اعتماد اور استحکام کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔
دفاعی صنعت کے بارے میں صدر کا کہنا تھا کہ جب سے انہوں نے عہدہ سنبھالا ہے، ترکیہ کی اپنی مصنوعات کی شرح 20 فیصد سے بڑھ کر 80 فیصد ہوگئی ہے۔

صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد ترک صدی کے وژن کے دائرہ کار میں ایک عظیم اور مضبوط ترکیہ کا قیام ہے جہاں ہمارے نوجوان اپنے خوابوں کو پورا کر سکیں گے۔
															