اسلام آباد/ کابل — استنبول میں منعقدہ دوسرا دور پاکستان و افغانستان کے مابین جاری عارضی جنگ بندی کو مستقل امن میں تبدیل کرنے کی کوششوں کے تحت کل شروع ہوا ہے۔ اس اجلاس میں دونوں ممالک کے نمائندے، بشمول ترک اور قطری ثالث، شرکت کر رہے ہیں تاکہ ایک دیرپاہ امن معاہدے کا فریم ورک مرتب کیا جا سکے۔
پہلے دورِ مذاکرات کے بعد طے شدہ 48 گھنٹے کی جنگ بندی کا عمل ہالے تک برقرار ہے، مگر پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ اس اعتبار میں سب سے اہم شرط یہ ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین سے پاکستان میں دہشت گرد حملوں کو روکنے کے تئیں ٹھوس اقدامات کرے۔
اس مرتبہ مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل اہم نکات درج ذیل ہیں:
دونوں ملکوں کے مابین ربط سازی اور بارڈر سیکیورٹی میکانزم کا قیام
Tehrik‑e‑Taliban Pakistan (TTP) اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں کو روکنے کی حکمتِ عملی
اقتصادی تعاون اور بارڈر ٹریڈ کی بحالی کی سمت اقدامات واضح کرنا
ثالث ممالک (ترکیہ، قطر) کی نگرانی میں معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنانے کا میکانزم
ترکیہ اور قطر نے اس سلسلے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے اور انقرہ نے اس اقدام کو بروقت اور اہم قرار دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں اور مستقل امن معاہدہ طے پا جائے، تو یہ نہ صرف دونوں ہمسایہ ممالک بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں استحکام اور ترقی کا نیا باب رقم کرے گا۔ لیکن اس کے لیے دونوں جانب سے اپنا حصہ ڈالنا ناگزیر ہے، اور سب سے بڑی آزمائش یہ ہے کہ جنگ بندی کو طویل المدت امن میں تبدیل کیا جائے۔
