اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ شام میں خانہ جنگی کو دس سال ہو چکے ہیں اور یہاں کی صورتحال روز بروز بگڑتی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کے کوآرڈینیٹر جینز لائیرکے نے کہا ہے گو کہ شام میں خانہ جنگی میں کچھ حد تک کمی آئی ہے لیکن یہاں ابھی 28 لاکھ ایسے افراد موجود ہیں جن کو فوری امداد کی اشد ضروت ہے۔ ان لوگوں کی مدد کرنے میں تُرکی اہم ترین کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مئی میں امدادی سامان کے 1800 ٹرک تُرکی سے ادلب پہنچے ہیں جہاں لوگوں کو امداد فراہم کی گئی۔ اس کے علاوہ تُرکی کا اقوام متحدہ کو بھی امدادی سامان کی فراہمی میں کردار اہم ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ خانہ جنگی میں کمی کے باوجود شامی شہریوں کیلئے حالات بہتر نہیں ہوئے ہیں اور انہیں ابھی تک امداد کی ضروت ہے۔ اس وقت شام میں ایک کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں جو اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کی طرف امداد کیلئے نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث صورتحال مزید تشویشناک ہو چکی ہے۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ شام میں خانہ جنگی دسویں سال میں داخل ہو گئی ہے۔ اتنا ہی عرصہ جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم بھی جاری رہی۔ طویل خانہ جنگی نے شام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اس سال کیلئے اقوام متحدہ نے صرف شام کے لوگوں کو خوراک، صحت کی خدمات اور شیلٹر ہومز کی تعمیر کیلئے 4 ارب ڈالر کی امداد مانگی ہے۔
اسی طرح شام کے ہمسایہ ممالک بھی اس وقت خانہ جنگی کا شکار ہیں جن کو امداد فراہم کرنا اشد ضروری ہے۔ تُرکی اس سلسلے میں اقوام متحدہ کو سب سے زیادہ امداد فراہم کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شام، لیبیا، یمن اور عراق میں امداد فراہم کرنے کیلئے 6 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ شام میں خانہ جنگی 2011 سے شروع ہوئی ہے جب بشارالاسد کی حکومت نے جمہوریت پسندوں پر کریک ڈاؤن شروع کیا۔ اب تک اس خانہ جنگی میں ہزاروں افراد جاں بحق جبکہ ایک کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔