turky-urdu-logo

پاکستان کا ایف اے ٹی ایف کی ’گرے لسٹ‘ سے نکلنے کا امکان

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں تقریباً 52 ماہ شامل رہنے کے بعد رواں ہفتے 21 اکتوبر (جمعہ) کو پاکستان کا نام بالآخر اس فہرست سے نکالے جانے کا امکان ہے۔

ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’ٹی راجا کمار کی 2 سالہ صدارت کے تحت ایف اے ٹی ایف کا پہلا پلینری اجلاس 20 اور 21 اکتوبر 2022 کو ہوگا‘۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پیرس میں ورکنگ گروپ اور پلینری اجلاسوں میں عالمی نیٹ ورک کے 206 ارکان اور مبصر تنظیموں کی نمائندگی کرنے والے مندوبین بشمول عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، انٹرپول اور ایگمونٹ گروپ آف فنانشل انٹیلی جنس یونٹس شرکت کریں گے، 2 روزہ بحث کے اختتام پر پلینری اجلاس میں طے کیے جانے والے فیصلوں کا اعلان کیا جائے گا۔

پلینری اجلاس میں عالمی مالیاتی نظام کے لیے خطرے کا باعث بننے والے عوامل پر بھی غور کیا جائے گا، علاوہ ازیں ان عوامل کی وضاحت کی جائے گی جنہیں اس حوالے سے زیادہ خطرے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے یا نگرانی میں اضافے سمیت دیگر اہم مسائل پر بھی غور کیا جاسکتا ہے جن میں فائدہ مند ملکیت کی شفافیت کو بہتر بنانے کے لیے رہنمائی شامل ہے، تاکہ شیل کمپنیوں اور دیگر مبہم نظاموں کو غیر قانونی فنڈز کی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہونے سے روکنا شامل ہے۔

پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے نمٹنے کے لیے قانونی، مالیاتی، ریگولیٹری، تحقیقات، استغاثہ، عدالتی اور غیر سرکاری شعبوں میں خامیوں کی وجہ سے جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا، یہ وہ عوامل ہیں جنہیں عالمی مالیاتی نظام کے لیے سنگین خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان نے 27 نکاتی ایکشن پلان کے تحت ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے اعلیٰ سطح کے سیاسی وعدے کیے لیکن بعد میں اس ایکشن پلان کے نکات کی تعداد بڑھا کر 34 کردی گئی۔

اس کے بعد سے پاکستان ایف اے ٹی ایف اور اس سے ملحقہ اداروں کے ساتھ بھرپور طریقے سے کام کر رہا ہے تاکہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف اپنے قانونی اور مالیاتی نظام کو مضبوط بنایا جاسکے اور ایف اے ٹی ایف کی 40 تجاویز کے مطابق عالمی معیارات کو پورا کیا جاسکے۔

ایف اے ٹی ایف اور ایشیا پیسیفک گروپ کے 15 رکنی مشترکہ وفد نے 29 اگست سے 2 ستمبر تک پاکستان کا دورہ کیا تھا، تاکہ ایف اے ٹی ایف کے 34 نکاتی ایکشن پلان پر پاکستان کی جانب سے عملدرآمد کی تصدیق کی جاسکے۔

حکام نے اس دورے کو پوشیدہ رکھا تھا اور بعد ازاں اسے کامیاب دورہ قرار دیا، وفد نے جون 2022 میں ایف اے ٹی ایف پلینری اجلاس کی جانب سے دورے کی اجازت کے تحت متعلقہ ایجنسیوں کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی۔

دفتر خارجہ کے مطابق دورے کا محور پاکستان کے اعلیٰ سطح کے عزم اور انسداد دہشت گردی و منی لانڈرنگ کے نظام میں اصلاحات کی پائیداری کی توثیق کرنا تھا، ایف اے ٹی ایف تشخیصی عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے کا منتظر ہے، دورہ کرنے والی ایف اے ٹی ایف کی ٹیم کی رپورٹ پر ایف اے ٹی ایف کے انٹرنیشنل کوآپریشن ریویو گروپ اور پلینری اجلاسوں میں تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

پاکستان کو اعتماد ہے کہ گزشتہ 4 برسوں میں سخت اور مسلسل کوششوں کے نتیجے میں اس نے نہ صرف ایف اے ٹی ایف کے معیارات کے مطابق اعلیٰ درجے کی تکنیکی تعمیل کی ہے بلکہ اس کے 2 جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد کے ذریعے مؤثر حکمت عملی کو بھی یقینی بنایا ہے۔

رواں برس جون میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو تمام 34 نکات پر عمل پیرا پایا اور اس نے گرے لسٹ سے پاکستان کا نام خارج کرنے کے باضابطہ اعلان سے قبل اس کی تصدیق کرنے کے لیے اپنی ٹیم دورے پر بھیجنے کا فیصلہ کیا جو بالآخر اگست اور ستمبر میں ہوا۔

ایف اے ٹی ایف کے طے شدہ معیارات کی تکنیکی تعمیل کے لحاظ سے ایشیا پیسیفک گروپ نے رواں برس اگست میں ایف اے ٹی ایف کی 40 میں سے 38 تجاویز پر پاکستان کو عمل پیرا یا بڑی حد تک تعمیل کرنے والے ملک کے طور پر شمار کیا جس سے پاکستان ان تجاویز پرعمل پیرا ممالک میں سرفہرست آگیا۔

انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف/ایشیا پیسیفک گروپ کے ایکشن پلان کی مارچ 2022 کے آخر تک تکمیل آئی ایم ایف کا بھی مطلوبہ معیار تھا جسے جون میں معمولی تاخیر کے بعد بالآخر حاصل کرلیا گیا۔

حکومت نے آئی ایم ایف کو جون 2022 کے آخر تک تعمیراتی شعبے کے لیے ٹیکس ایمنسٹی پروگرام کے حوالے سے مالیاتی اداروں کے ذریعے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے کنٹرولز کے نفاذ کا جائزہ لینے اور ایشیا پیسیفک گروپ کے ایکشن پلان 2021 کے نفاذ کا وعدہ کیا ہے۔

Read Previous

امریکہ میں ترک روایات کا حامل ثقافتی میلہ

Read Next

سر زمین افغانستان کو کسی کے بھی خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے،افغان حکومت

Leave a Reply