تحریر : ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ
جب مسلمانوں نے یورپ کی بادشاہی حاصل کرنے کا موقعہ کھو دیا
آج کا دن اور اس جنگ کی فتح کا جشن اہل مغرب تو بہت شان سے یوم نجات کے طور پر مناتے ہیں
لیکن مسلمان اوران کی نئی نسل اس کی اہمیت سے یکسر ناواقف ہیں
یہاں تک کہ ہماری تاریخ کی کتابوں میں بھی اس جنگ کا ذکر نہیں ملتا
تقریباً تیرہ سو سال پہلے آج ہی دن پیرس کے مضافات میں ایک تاریخ ساز جنگ لڑی گئی جس میں مسلمانوں کی بدترین شکست کے ساتھ ہی ان کی یورپ میں فتوحات کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے رک گیا اور انہوں نے یورپ پر فتح کا سنہری موقعہ گنوا دیا
پیرس سے تقریباً تین سو کلو میڑ دور ٹورز Tours اور Poitiers کے درمیان دریائے کلین River Clain
کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جسے Moussais La Bataille کہتے ہیں اس گاؤں کے باہر ایک شاندار میوزیم قائم ہے جہاں تیرہ سو سال پہلے سجنے والے اس میدان جنگ کی تفصیل خوبصورت انداز میں بڑے بڑے بورڈ ز پر درج ہے
یہاں ایک بہت بڑی شطرنج کی بساط بھی بچھائی گئی ہے جس کے مختلف خانے اس جنگ کے مختلف مراحل کو ظاہر کرتے ہیں
لاکھوں سیاح ہر سال اس جگہ کی زیارت کے لئے آتے ہیں
جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس جنگ کی مغرب کے نزدیک کتنی زیادہ اہمیت ہے
ہمارے ہاں تاریخ کے قارئین میں عموماً یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ امیر تیمور لنگ اور بایزید یلدرم کے درمیان ہونے والی جنگ انقرہ (جنگ انگورہ) سے مسلم فتوحات کو سخت دھچکا پہنچا اور کچھ تو یہ نتیجہ تک نکالتے ہیں کہ ان دونوں کی آپس کی چپقلش سے مسلمانوں کے دنیا بھر کو فتح کرنے کے مقصد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ بہرحال، اس نظریے کے حق میں ہو سکتا ہے ان کے پاس چند دلائل ہوں لیکن درحقیقت جنگ انگورہ کے علاوہ، اور اس سے بہت پہلے بھی، مسلمانوں کو چند مواقع ایسے ضرور ملے جب انہوں نے ساری دنیا پر حکمرانی کرنے کے موقع کو اپنے ہاتھوں سے کھویا۔
ان میں سب سے پہلا موقع 732ء میں آج ہی کے دن یعنی 10 اکتوبر کو فرانس میں ملا۔
دسویں اموی خلیفہ ہشام بن عبدالمالک کا دور تھا ہسپانیہ یورپ میں مسلمانوں کا گڑھ بن چکا تھا
ہسپانیہ کا گورنر عبدالرحمن بن الغافقی ایک بہادر اوربڑا اچھا قابل حکمران تھا وہ بیس ہزار گھوڑسوار فوج لے کر فرانس پر حملہ آور ہوا
یہ وہ دور تھا جب یورپ اور خاص طور پر فرانس چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹا ہوا تھا
مسلم فوج سارے مغربی فرانس کو بآسانی فتح کرتی پیرس کے قریب پہنچ گئی جہاں Moussais La Batailleکے میدان میں ان کا مقابلہ فرانس اور یورپ کی متحدہ فوج سے ہوا جسے جنگ توغ یا Battle of Tours کہتے ہیں جو دو دن تک جاری رہی اوردوسرے دن عبدالرحمن الغافقی کی شہادت کے بعد مسلم فوج کے حوصلے جواب دے گئے اور میدان فرینک افواج کے ہاتھ رہا حقیقت تو ہے کہ میرے اللہ کو مسلمانوں کی فتح منظور ہی نہیں تھی فرانس میں اکتوبر کے مہینے میں کبھی برف نہیں پڑتی لیکن اکتوبر 732ء میں اتنی برف پڑی کہ ریکارڈ ٹوٹ گئے مسلمانوں کی ساری فوج گھوڑ سوار تھی صحرا نشینوں کے لئے موسم کی یہ سختی بلکل نئی تھی میدان جنگ میں ان کے لئے حرکت کرنا بھی دشوار ہوگیا
عبدالرحمان الغافقی کا گھوڑا برف پر سے پھسلا اور وہ شہید ہوگئے جبکہ فرینک پیدل تھے ماحول سے واقف تھے علاقہ اور موسم ہر طرح سے ان کے ساتھ تھا نتیجتا مسلمانوں کو بدترین شکست ہوئی اور اس شکست کے ساتھ ہی نہ صرف مغربی یورپ میں ان کی پیشقدمی کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔بلکہ انہیں فرانس میں اپنے باقی تمام مقبوضات سے بھی ہاتھ دھونا پڑ گئے
اس جنگ میں فرینک فوجوں کی قیادت فرانس کے بادشاہ چارلس نے کی
جسے اس فتح کی منا سبت سے چارلس مارٹیل ( ہتھوڑا) کہا جاتا ہے
بعد میں ہسپانیہ کے نئے گورنر عقبہ بن الحجاج نے 735ء میں فرانس کی طرف ایک اور پیش قدمی کی جسے چارلس نے ناکام بنا دیا
اور پھر عباسیوں اور امویوں کی باہمی لڑائی اور739ء میں بر بر بغاوت کی وجہ سے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے فرانس سے ہاتھ دھونا پڑے
معروف مغربی مؤرخ ایڈورڈ گبنز Edward Gibbon اس جنگ کے حوالے سے یہ تک لکھتے ہیں کہ "اگر اس جنگ میں چارلس مارٹیل مسلمانوں کو شکست نہ دیتا تو ہو سکتا ہے کہ مسلمان پولینڈ سے لے کر اسکاٹ لینڈ کے پہاڑی علاقوں تک پھیل جاتے، دریائے رائن ان کے لیے نیل و فرات کی طرح ناقابل عبور نہ ہوتا، عربی بحری بیڑہ بغیر کسی مزاحمت کے دریائے ٹیمز سے گزرتا۔ اور ہو سکتا ہے کہ آکسفرڈ کے مدارس میں قرآن کی تعلیم دی جا رہی ہوتی ۔”
مختصر یہ کہ اس جنگ نے فیصلہ کیا کہ یورپ کا مستقبل عیسائیت ہے، اسلام نہیں۔ گو کہ مسلمانوں نے بعد میں کئی صدیوں تک ہسپانیہ پر حکمرانی کی اور علم و حکمت کے چراغ روشن کیے لیکن مغربی یورپ میں انہیں دوبارہ پھر کبھی پیشرفت کا موقع نہ مل سکا۔
مسلم مؤرخین اس جنگ کو بلاط الشہداء کے نام سے یاد کرتے ہیں
بلاط عربی میں شاہراہ کو کہتے ہیں ہیں۔کیونکہ یہ گاؤں اس قدیم رومی شاہراہ (Roman Road )پر قائم تھا جسے رومیوں نے بنایا تھا اور اسی مناسبت سے یہ جنگ بلاط الشہداء کہلاتی ہے
اسلامی تاریخ میں یہ جنگ ایک ایسا گمشدہ باب ہے جسے مسلمان یاد بھی نہیں کرنا چاہتے اور اکثر مسلم مؤرخین اس کا سرسری سا ذکر کر کے گزر جاتے ہیں
لیکن مغربی تاریخ دان آج بھی اس جنگ کو عالمی تاریخ کی 10 فیصلہ کن اور اہم ترین جنگوں میں شمار کرتے ہیں۔
اہل مغرب اور خاص طور پر سفید نسل پرستوں کی نظر میں چارلس مارٹیل یورپ اور عیسائیت کا نجات دہندہ ہے اور مغربی تاریخ میں اسے بہت اہم اور بڑا مقام حاصل ہے
یہی وجہ کہ کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے دہشت گرد برنٹن ٹورنٹ کی رائفل اور کپڑوں پر جگہ جگہ چارلس کا نام اور 732 درج تھا اور اس نے تین بار فرانس میں واقع اس میدان جنگ کا دورہ کیا
ایڈورڈ شیپرڈ Edward Shepherd Creasy نے اس جنگ کو اپنی کتاب “ دنیا کی پندرہ فیصلہ کن ترین جنگیں Fifteen decisive battles of world “ میں جگہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ
“ Great victory won by Charles Martel gave decisive check to career of the Arab conquests in
Western Europe “
ہٹلر نے ایک دفعہ اپنی پارٹی کی سالانہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
“اگر وہ 732ء میں یہ جنگ جیت جاتے تو آج ساری دنیا مسلمان ہوتی “
ایچ جی ویلز H G Wells لکھتا ہے
“Charles saved the Christendom and Western Civilization “
چارلس نے عیسائیت اور مغربی تہذیب کو بچایا
اایڈورڈ گببن Edward Gibbon نے ایک اور جگہ لکھا کہ
“اگر چارلس کو شکست ہو جاتی تو اموی خلافت بڑی آسانی سے ٹکڑوں میں بٹّے یورپ پر قابض ہو جاتی “
Had the Charles fallen , Umayyad Caliphate would have easily conquered a divided Europe