
دُنیا بھر میں خزاں کے موسم کی آمد آمد ہے، درختوں سے پھول اور پتے کم ہونا شروع ہو گئے ہیں، لیکن پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد جائیں تو یوں لگتا ہے کہ یہاں موسمِ بہار، وقت سے پہلے گُل کھلا چُکا ہے۔ شاہراہوں اور چوراہوں پر پھول ہی پھول سجائے جا رہے ہیں، شہر کی عمارتوں میں برقی قمقمے سجائے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی عید یا جشن نہیں بلکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے 23 ویں سربراہی اجلاس کی تیاریاں ہیں، جِس کی میزبانی پاکستان کر رہا ہے۔
اجلاس 15 اور 16 اکتوبر کو منعقد ہوگا لیکن مہمان ممالک کی آمد جا ری ہے۔ چینی وزیرِ اعظم 15 رکنی وفد کے ساتھ پاکستان پہنچ چُکے ہیں۔ اسلام آباد میں سیکیورٹی کے انتظامات سخت ہیں، 17 اکتوبر تک شہر کی سیکیورٹی پاکستانی فوج کے حوالے کی گئی ہے۔ایکسپریس ہائی وے اور سرینگر ہائی وے کو متعین اوقات کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔
اجلاس میں چین، روس،بیلاروس، قازقستان،ازبکستان، کرغزستان اور تاجکستان کے وزرائے اعظم شرکت کریں گے۔ جبکہ بھارت کے وزیرِ خارجہ اور ایران کے نائب صدر بھی اجلاس میں شرکت کریں گے۔
اجلاس میں منگولیا کے وزیرِ اعظم بطور مبصر اور ترکمانستان کے وزیرِ خارجہ خصوصی مہمان کے طور پر شرکت کریں گے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں حکومت کی جانب سے 3 روزہ عام تعطیل کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں دُنیا کا 24٪ رقبہ اور 42٪ آبادی آتی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی جڑیں "شنگھائی 5 ” سے مِلتی ہیں جِسے 1996 میں چین، روس، قازقستان، تاجکستان اور کرغزستان نے مل کر بنایا تھا۔ 2001 میں ازبکستان کی شمولیت سے اِس تنظیم کا نام شنگھائی تعاون تنظیم رکھ دیا گیا۔
2005 میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ ایران اور منگولیہ کے نمائندوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی۔ 2015 میں پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقل رکن بنا اور 2017 میں پاکستان نے پہلی مرتبہ بطور مستقل رُکن اِس کے اجلاس میں شرکت کی۔