turky-urdu-logo

پاکستان مقامی قرضوں کی دلدل میں دھنس رہا ہے

حکومت نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال میں مقامی قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک سے قرضوں کے حصول پر انحصار محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ نئے مالی سال میں فکسڈ ریٹ (ایسی شرح سود جس میں اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ کے اتار چڑھاؤ سے فرق نہ پڑے) پر طویل مدت کے قرضے حاصل کئے جائیں تاکہ ٹیکس آمدنی کا بڑا حصہ قرضوں اور ان پر عائد شرح سود کی ادائیگی کو کم کیا جا سکے۔

موجودہ حکومت کے دو سال میں پاکستان کے مقامی قرضوں کا بوجھ ساڑھے چھ ہزار ارب روپے بڑھ گیا ہے جو ایک غیر معمولی اور خطرناک رجحان ہے۔ جون 2018 کو ختم ہونے والے مالی سال میں پاکستان کے مقامی قرضوں کا حجم 17 ہزار ارب روپے تھا جو اپریل 2020 میں 23 ہزار 575 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت یومیہ 9 ارب روپے کا قرضہ مختلف ذرائع سے حاصل کیا۔

اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسٹیٹ بینک سے مارکیٹ ٹریژری بلز کے ذریعے قرضوں کے حصول کو کم کر کے طویل مدتی بانڈز کی فروخت سے قرض حاصل کرے گی۔ ان طویل مدتی قرضوں کیلئے حکومت پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کو استعمال کرے گی جن کی مدت تین، پانچ، دس، پندرہ اور بیس سال کی ہو گی۔

آئندہ مالی سال میں حکومت نے فلوٹنگ ریٹ (شرح سود کے اتار چڑھاؤ) پر قرض نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے اسٹیٹ بینک کے مارکیٹ ٹریژری بلز کی مد میں رواں مالی سال کے دوران 286 ارب روپے واپس کر دیئے ہیں۔ دوسرا حکومت نے چھ ماہ کی قلیل مدت کے قرضوں کی ری پروفائلنگ کر دی ہے یعنی ان قرضوں کو ایک سے دس سال کی مدت میں تبدیل کر دیا ہے اور اس پر شرح سود بھی مقرر کر دی ہے۔ اب اگر اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں اتار چڑھاؤ ہوتا بھی ہے تو ان قرضوں کی شرح سود میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حکومت نے اسٹیٹ بینک سے جو قرض لیا ہے اس میں 70 فیصد قرض فلوٹنگ ریٹ پر ہے جسے حکومت بتدریج طویل مدت کے فکسڈ ریٹ پر منتقل کر رہی ہے۔

اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مقامی قرضے (مجموعی قومی پیداوار) جی ڈی پی کے 78 فیصد کے مساوی ہو چکے ہیں۔ ان قرضوں میں اپریل 2020 تک فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کئے گئے قرضوں کی مالیت 5 ہزار 975 ارب روپے ہے۔ ان میں سے مارکیٹ ٹریژری بلز کے ذریعے حاصل کئے گئے قرضوں کا حجم 5 ہزار 690 ارب روپے ہے۔

حکومت نے قومی بچت کی مختلف اسیکموں (نیشنل سیونگز) کے ذریعے دو سال میں 768 ارب روپے حاصل کئے جس کے بعد پاکستان کے مقامی قرضوں میں قومی بچت اسکیموں کے ذریعے حاصل کئے گئے قرضوں کا حجم 3 ہزار 636 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔

اس وقت پاکستان کے مقامی قرضوں میں انعامی بونڈز (پرائز بونڈز) کے ذریعے حاصل کئے گئے قرضوں کی مالیت 736 ارب روپے ہے۔ مقامی قرضوں میں سب سے بڑا شیئر طویل مدت کے پاکستان سرمایہ کاری بونڈز (پاکستان انویسٹمنٹ بونڈز) کا ہے۔ اس مد میں موجودہ حکومت نے دو سال میں 8 ہزار 944 ارب روپے حاصل کئے ہیں۔ جون 2018 میں پاکستان سرمایہ کاری بونڈز کے ذریعے قرضوں کی مالیت 3 ہزار 800 ارب روپے تھی جو اپریل 2020 میں 12 ہزار 744 ارب روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔

پوسٹل لائف انشورنس اور جی پی فنڈز کی مد میں قرضوں کی مالیت 146 ارب روپے ہے۔

اگر پاکستان پر عائد مجموعی قرضوں کا جائزہ لیا جائے جس میں مقامی اور غیر ملکی قرضے شامل ہیں تو پاکستان کے قرضوں کا حجم 42 ہزار 820 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ یہ قرض پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے 98 فیصد کے مساوی ہے۔ دو سال میں پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 12 ہزار 946 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ماہر امور ٹیکس محمد اشفاق تولہ کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال میں حکومت کو ٹریژری بلز پر فی الحال بڑا قرضہ لینا پڑے گا کیونکہ حکومت کی ٹیکس آمدنی میں آئندہ مالی سے اہداف پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال میں حکومت نے ٹریژری بلز کے ذریعے 400 ارب روپے حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح حکومت طویل مدت کے پاکستان سرمایہ کاری بونڈز سے بھی 400 ارب روپے قرض لے گی۔ 450 ارب روپے کے سکوک بونڈز (اسلامی بونڈز) بھی جاری کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

محمد اشفاق تولہ کے مطابق حکومت کی مالی پریشانیاں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ بجٹ خسارہ تاریخ کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ رہا ہے اور یہ رجحان ابھی مزید کچھ سال تک جاری رہے گا۔

حکومت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ قرضوں کے حصول میں اسلامی اصولوں یعنی بلاسود قرضوں پر انحصار بڑھایا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گورنمنٹ آف پاکستان کے تین سال کے اجارہ سکوک بونڈز کی مالیت جو جون 2018 میں 385 ارب روپے تھی وہ اب کم ہو کر 147 ارب رہ گئی ہے۔ جون 2019 میں حکومت نے 177 ارب روپے کے بائی مجل سکوک بونڈز جاری کئے۔ اس طرح پاکستان کے مقامی قرضوں میں اسلامی طرز کے سکوک بونڈز کے قرضوں کا حجم 385 ارب روپے ہے جو کہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔

سابق وزیر خزانہ اور ماہر معاشیات ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کہتے ہیں کہ معیشت پہلے ہی کساد بازاری کا شکار تھی اور اب کورونا وائرس کی عالمی وبا نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ حکومت کیلئے مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرنا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے کیونکہ آئی ایم ایف پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ آئندہ مالی سال میں پاکستانی معیشت کی ترقی یعنی جی ڈی پی گروتھ ایک فیصد رہے گی۔ ایک طرف کورونا وائرس کا بحران ہے اور دوسری طرف کاروبار اور صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ ملک کی 48 فیصد آبادی غربت کی سطح سے نیچے جا چکی ہے۔ ایک کروڑ 20 لاکھ افراد اب تک بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں حکومت ٹیکس آمدنی کا ہدف حاصل کرنا بھول جائے کیونکہ جب معیشت کا پہیہ نہیں چلے گا تو آمدنی کہاں سے آئے گی۔ اس لئے حکومت کے پاس سوائے مقامی اور غیر ملکی قرضوں کے حصول کے کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔

پاکستان کے قرضوں اور آمدنی میں فرق:

ہر حکومت جب بجٹ پیش کرتی ہے تو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر ٹیکس آمدنی کے بڑے اہداف پیش کرتی ہے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے ٹیکس آمدنی پر نظرثانی کرتے ہوئے اسےکم کیا جاتا ہے۔ 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کیلئے بھی حکومت نے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تخمینہ 5 ہزار 555 ارب روپے پیش کیا تھا لیکن کچھ دنوں بعد ہی اس پر نظرثانی کرتے ہوئے اس ٹیکس آمدنی میں ایک ہزار 647 ارب روپے کی کمی کی گئی اور اسے 4 ہزار 208 ارب روپے پر لایا گیا۔

حکومت نے بجٹ دستاویز میں کہا ہے کہ رواں مالی سال میں بجٹ خسارہ یعنی ٹیکس آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن 2 ہزار 222 ارب روپے ہے جو جی ڈی پی کے 5.3 فیصد کے مساوی ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کیلئے حکومت نے بیرونی ذرائع سے 837 ارب جبکہ مقامی ذرائع سے 1384 ارب روپے قرض حاصل کیا ہے۔

یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کیلئے بھی حکومت نے 5 ہزار 464 ارب روپے ٹیکس آمدنی سے حاصل کرنے کا تخمینہ پیش کیا ہے۔ ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سی ای او اور تجزیہ کار محمد سہیل کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کی معیشت جس بحران سے گزر رہی ہے اس میں ٹیکس آمدنی کا ہدف حاصل کرنا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ حکومت نے اپنی بجٹ دستاویز پہلے یہ بتا دیا ہے کہ آئندہ مالی سال میں 2200 ارب روپے کی بجٹ فنانسنگ حاصل کی جائے گی جس میں سے 1395 ارب روپے مقامی اور 800 ارب روپے کے غیر ملکی قرضے لئے جائیں گے۔ اسی آئندہ مالی سال میں حکومت نے مقامی اور غیر ملکی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کی مد میں 2 ہزار 946 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ٹیکس آمدنی کا 70 فیصد سے زائد صرف اور صرف قرضوں اور سود کی واپسی پر خرچ ہو گا۔ محمد سہیل کہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں اخراجات مسلسل بڑھ رہے ہیں جبکہ آمدنی مسلسل گھٹ رہی ہے۔

قرضوں کی ادائیگی کے علاوہ ایک اور بڑا خرچہ جو ہر سال ہر حکومت کو کرنا پڑتا ہے وہ ہے سرکاری اداروں میں ہونے والے نقصانات۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق سرکاری اداروں (پبلک سیکٹر انٹرپرائزز) کے قرضوں کا حجم ایک ہزار 587 ارب کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا ہے۔ مارچ 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق قومی فضائی کمپنی پی آئی اے سب سے بڑا ہاتھی ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے مجموعی قرضوں کی مالیت 137 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ واپڈا دوسرا بڑا ہاتھی ہے جس کے قرضوں کا حجم 87 ارب روپے ہے۔ کئی سال سے بند پڑی پاکستان اسٹیل ملز پر واجب الادا قرضوں کی مالیت 43 ارب روپے ہے۔ دیگر سرکاری ادارے جس میں ریلویز بھی شامل ہے ان کے قرضوں کا حجم ایک ہزار 124 ارب روپے ہے۔ آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی (او جی ڈی سی ایل) 6 ارب روپے کی مقروض ہے۔

Read Previous

پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملہ، چاروں دہشت گرد جاں بحق

Read Next

کیا مچھروں سے کورونا منتقل ہو سکتا ہے؟

Leave a Reply