turky-urdu-logo

یوم نکبہ 15 مئی 1948 فلسطین کا سیاہ دن

تحریر : مہتاب عزیز

"حماس کے راکٹ حملے اسرائیل کو فلسطینیوں پر حملوں کا موقعہ دیتے ہیں”۔
یہ بیانیہ دجال کے پیروکار تاریخ سے نابلد افراد کو گمراہ کرنے کے لیے پھیلاتے ہیں۔
کل 15 مئی 2021 کو یوم نکبہ کی 73 ویں یاد منائی گئی۔ یوم نکبہ انسانی تاریخ کی تباہی و بربادی کا وہ سیاہ ترین دن ہے جب 1948 میں فلسطین کی نصف سے زیادہ آبادی کو اُن کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کیا گیا تھا۔
مسئلہ فلسطین کا آغاز عرب بدوں کی غداری کی وجہ سے خلافت عثمانیہ کی فوجوں کی پسپائی سے شروع ہوا۔ جنگ عظیم کے دوران ہی 16 مئی 1916ء کو حکومت برطانیہ اور فرانس کے درمیان خفیہ معاہدہ سائیکوس-پیکوٹ معاہدہ طے پایا۔ جس میں دونوں ممالک نے جنگ عظیم اول کے بعد اور سلطنت عثمانیہ کے ممکنہ خاتمے کے پیش نظر مشرق وسطٰی میں اپنے حلقۂ اثر کا تعین کیا۔ اس معاہدے میں برطانیہ نے یہودیوں سے کیے گئے وعدے کی تکمیل کے لیے "بالفور ڈیکلریشن مینڈیٹ کا علاقہ” بطور فلسطین ایک الگ خودمختار ملک تخلق کیا۔ میں "حیفہ کے مشرق میں تاریخی طور پر لبنان کے علاقے سے لے کر "ٹرانس جورڈن” تک اور مصر صحرائے سینا سے متصل اور غزہ کو شامل کیا گیا تھا۔ اس کا دارلحکومت بیت المقدس (یروشلم) کو قرار دیا گیا۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ اُس وقت فلسطین کی حدود میں موجودہ اردن کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے یہ سارا علاقہ کبھی فلسطین نہیں کہلاتا تھا۔ فلسطین تاریخ طور پر "دریائے اردن” کے مغربی کنارے سے لے کر "رام اللہ”، "نابلوس”، "راملی” اور "یافا” تک کا علاقہ کہلاتا تھا۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں "ہیبرون اور "غزہ” تاریخ کے مختلف ادوار میں فلسطین کا حصہ رہے ہیں۔ البتہ "ناصرون”، "حیفہ” اور ان سے آگلے علاقے تاریخی طور پر لبنان کا حصہ تھے۔ "بیرسببہ” کا سارا علاقہ مصر کا حصہ تھا۔
9 دسمبر 1917 برطانوی افواج کے کمانڈر جنرل ایڈمنڈ کے "بیت المقدس” میں داخلے کے فوری بعد ہی "بالفور ڈیکلریشن مینڈیٹ” پر عمل شروع ہو گیا۔ 19 سے 26 اپریل 1920 کے دوران اٹلی کے شہر "سان ریمو” میں ہونی والی عالمی کانفرنس میں دیگر ممالک کے ساتھ نئے تخلیق شدہ ملک فلسطین کی آزادی کا اعلان کیا گیا۔ 10 اگست 1920ء کو معاہدہ سیورے (Treaty of Sevres) کے تحت "اتحادی قوتوں” نے ترکی سے اس آزادی کو تسلیم بھی کروا لیا۔ 11 ستمبر 1922 کو "لیگ آف نیشن” نے الگ ملک فلسطین کے باضابطہ قیام کی منظوری دیتے ہوئے اسے "برطانیہ کی تولیت” میں دے دیا۔
"لیگ آف نیشنس کی فلسطین کی تولیت کی برطانوی مینڈیٹ ڈیڈ” کے آرٹیکل 2 میں واضع طور پر درج ہے کہ ” برطانوی انتظامیہ لازمی ملک (فلسطین) کو سیاسی ، انتظامی اور معاشی طور پر ایسے حالات میں رکھنے کا ذمہ دار ہے جو ‘یہودی قومی گھر’ کے قیام کی ضمانت دیتے ہوں”۔
ایسی دستاویز کے آرٹیکل 4 میں مذکور ہے۔ "یہودی قومی گھر کے قیام اور فلسطین میں یہودی آبادی کے مفادات کو متاثر کرنے والے اور معاشی و معاشرتی امور اور دیگر معاملات میں فلسطین کے انتظامیہ کے ساتھ مشورے اور تعاون کرنے کے لئے "عالمی صہیونی ایسوسی ایشن” کو ایک عوامی ایجنسی کے طورپر تسلیم کیا گیا ہے۔ ‘عالمی صیہونی ایسوسی ایشن’ کو برطانوی حکومت سے مشاورت سے وہ تمام ضروری اقدامات کرنے کی آزادی ہو گی جو ان تمام یہودیوں کے لیے مددگار ہوں جو یہودی وطن کے قیام میں شامل ہونا چاہتے ہوں ۔
آرٹیکل 22 میں درج ہے: "انگریزی ، عربی اور عبرانی فلسطین کی سرکاری زبانیں ہوں گی ، اور فلسطین میں استعمال ہونے والے ڈاک ٹکٹ یا کرنسی پر عربی میں لکھے جانے والے ہر فقرے یا تحریر کو عبرانی زبان میں دہرایا جانا چاہئے”۔
برطانوی دور میں یہودیوں کو فلسطین لانے کے لیے پوری دنیا میں ترغیبی مہمات چلائیں گئیں۔ فلسطین ہجرت کرنے والوں کے لیے مراعاتی ہیکجز پیش کیے گئے۔ تمام بڑے بڑے یہوی ناموں نے اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ لیکن اس کے باوجود یہودیوں کا رد عمل مایوس کُن تھا۔ لیگ آف نیشن اور برطانوی انتظامیہ دونوں کے اعداد و شمار کے مطابق 1920 اور 1945 کے درمیان کل 33،304 یہودیوں نے یورپ، ایشیا ، افریقہ اور امریکہ سے فلسطین ہجرت کی۔ جس کی وجہ سے نہ تو مقامی آبادی کے تناسب میں کوئی خاص فرق پڑا اور نہ ہی یہود ، مسلم محاذ آرائی شروع ہو سکی۔
20 نومبر1935 میں برطانوی فوج نے معروف شامی مجاہد شیخ محمد عز الدين بن عبد القادر القسام کو حیفہ کے قریب شہید کر دیا۔ جس پر فلسطینی مسلمان بھڑک اٹھے۔ برطانوی انتظامیہ کے خلاف جذبات کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اس موقعہ پر صہیونی تنظیم نے برطانیہ کے حق میں مظاہرے کیے۔ اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروع کرنے والی تقاریر کیں۔ جن کی وجہ سے پہلی بار مسلمان یہود تصادم ہوئے۔
ان معمولی سے تصادم کو بنیاد بنا کر برطانوی حکومت نے یہودیوں کو مسلح کرنا شروع کر دیا۔ صہیونی تنظیم نے برطانوی فوج کے تعاون اور امداد سے مختلف علاقوں میں اپنے "اسٹرن اور ارگون” جیسے درجنوں گینگ بنا لیے۔ تشدد کی تحقیقات کرنے والے برطانوی انتظامیہ کے "رائل پیل کمیشن” کے اعداد و شمار کے مطابق 1936 اور 1937 کے 18 ماہ کے درمیان یہودی دہشت گرد گروپوں کے حملوں میں 5 ہزار فلسطینی عرب ہلاک اور 10 ہزار زخمی ہوئے۔ (مسلمانوں کا دعویٰ اس سے تین گنا زیادہ کا ہے)
فلسطین میں مسلسل یہودی دہشت گردی کے نتیجے میں عالم اسلام خصوصا عرب ممالک میں شدید جذبات سامنے آئے۔ جس سے مصر اور عراق میں بلخصوص برطانوی مفادات کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ برطانیہ نے مسلمانوں کی اشک شوئی کے لیے 1939 میں یہود کی مزید فلسطین ہجرت پر پابندی عاید کر دی۔ جس کے جواب میں صہیونی تنظیم نے برطانوی انتظامیہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان بغاوت میں کہا گیا کہ برطانیہ چونکہ یہود کے دشمن نازیوں سے برسر پیکار ہے اس لیے صہیونی براہ راست اُسے نشانہ نہیں بنائیں گے۔ بلکہ برطانوی انتظامیہ کے لیے کام کرنے والے مسلمان، اُن کے اہل خانہ اور املاک صہیونی دہشت گرد تنظیموں کا ہدف ہونگے۔ 1939 سے 1945 کے دوران ہزاروں مسلمان فلسطینی صہیونی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ دوسری طرف برطانیہ انتظامیہ نے یہودی دہشت گردی کو کچلنے میں کسی دلچسبی کا اظہار نہیں کیا۔
مسلمانوں کی بار بار کی اپیلیوں کے جواب میں برطانوی افسران کا جواب ہوتا کہ جنگی حالات میں نیا محاذ نہیں کھولا جا سکتا۔ جنگ کے اختتام پر دہشت گردی کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اسی دوران یورپ سے جنگ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں یہودیوں کی ہجرت میں تیزی آ گئی۔ 1939 سے 1945 کے دوران 60 ہزار کے قریب غیر قانونی یہودی تارکین وطن یہودی فلسطین میں داخل ہوئے۔ جبکہ ایک لاکھ کے قریب یہودیوں کو اتحادی افواج نے پناہ گزین کے طور پر فلسطین پہنچایا۔
3 جولائی 1944 کو برطانوی انتظامیہ نے اتحادی افواج میں یہودی برگیڈ کے قیام کا اعلان کیا۔ کہا گیا کہ جو یہودی دہشت گردی میں میں ملوث نہ ہونے یا تائب ہونے کی یقین دھانی کرائیں گے وہ اس برگیڈ میں بھرتی ہو سکتے ہیں۔ برطانیہ نے یہودی برگیڈ کو اعلیٰ پائے کی عسکری تربیت دی اور اُنہیں اُس وقت کے جدید ترین اسلحے سے لیس کیا۔
یہاں واضع رہے 1945 کے اختتام تک ، یہودی فلسطینیوں کی کل آبادی کا صرف 16٪ تھے اور انکی میں ملکیت میں صرف 3٪ زمین تھی۔ کیوں کہ ان کی اکثریت غیر قانونی تارکین وطن اور پناہ گزینوں پر مشتعمل تھی۔۔
1946 میں برطانیہ نے یہودی آباد کاری سے مکمل پاک اور گنجان مسلم آبادی والا علاقہ فلسطین سے کاٹ کر الگ ملک اردن بنا دیا۔ اور اُسے خلافت عثمانیہ سے غداری کرنے والے ھاشمی خاندان کے حوالے کر دیا۔ جہاں آج اردن کی بادشاہت قائم ہے۔ اردن کے فلسطین سے کٹ جانے سے آبادی کے تناسب میں خاصہ فرق پڑھ گیا۔ یہودیوں کی باقی معاندہ فلسطین میں تعداد 16 فیصد سے بڑھ کر تیس فیصد سے زیادہ ہو گئی۔
ایک لاکھ یہودیوں کو یورپ سے فلسطین منتقل کرنے اور مسلمان آبادی کا بڑا حصہ الگ کرنے کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج اور ہڑتالیں کیں۔ جس کے جواب میں صہیونی دہشت گردی میں تیزی آ گئی۔ اس دہشت گردی میں برطانیہ کی زیر کمان یہوندی برگیڈ بھی شامل ہوتا چلا گیا۔ حالات کی خرابی کا بہانہ بنا کر18 فروری 1947 میں برطانوی کابینہ نے فلسطین سے دستبرداری اور معاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپریل 1948 کو ہیفہ میں موجود شمالی سیکٹر کے برطانوی کمانڈر میجر جنرل ہیو اسٹاک ویل برطانیہ نے فلسطین سے اپنی فوجوں اور سول انتظامیہ کے انخلا کے موقعہ پر اسلحہ اور تنصیبات "یہودی برگیڈ” کے حوالے کر دیں۔
برطانوی دستبرداری کے ساتھ ہی صہیونی تنظیم نے مسلمانوں کے قتل عام شروع کر دیا۔ صیونی لیڈر اور اسرائیل کے پہلے صدر بین گوریئن نے بیان جاری کیا کہ "فلسطینی مسلمان یہودی ریاست کے لیے غدار (fifth columnist) بن سکتے ہیں ، اس لیے انہیں بڑے پیمانے پر گرفتار ملک بدر کرنا ضروی ہے۔ گرفتار کرنے کی نسبت انہیں انھیں ملک بدر کیا جانا بہتر ہے۔
یہودی برگیڈ کے کمانڈر اور بعد میں اسرائیلی افواج کے پہلے کمانڈر انچیف "موردچائی مکلیف” نے حائفہ میں فلسطینیوں کی نسلی صفائی کی مہم کا آغاز کیا۔ اس نے اپنے فوجیوں کو سیدھا اور آسان حکم تحریری طور پر جاری کیا تھا "جس بھی عرب سے آپ کا سامنا ہو اسے مار ڈالو۔ دھماکا خیز مواد سے تمام جلنے والی اشیاء کو جلاؤ دو”۔
فلسطین میں مسلمانوں کی نسلی صفائی کو "آپریشن کینسر” کا نام دیا گیا تھا۔ جس میں یہودی برگیڈ کے ساتھ ہاگانا ، پامماچ اور ارگن جیسی صیہونی دہشت گرد تنظیمیں بھی شامل تھیں۔ ۔ “تبیریہ “فلسطین کا پہلا بڑا شہر تھا جو صہیونی دہشت گردی کا نشانہ بنا۔ جہاں ایک بھی مسلمان کو رہنے نہیں دیا گیا۔ حیفہ دہشت گردی کا شکار دوسرا بڑا شہر بنا۔
اپریل 1948 کو یہودی فوجوں نے "دیر یاسین” کے علاقے میں قتل عام کیا۔ ہزاروں مسلمانوں کو مختلف دیہاتوں سے ایک جگہ جمع کیا گیا۔ خواتین کو سب کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا، پھر بچوں کو الگ کر کے زبح کیا۔ اور مردوں کو مشین گن کی گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ اس قتل عام سے معجرانہ طور پر بچ جانے والے 12 سالہ لڑکے "، فہیم زائدان” نے عشروں بعد اپنی یاداشتیں شائع کرائیں تو دنیا کو اس کے بارے میں علم ہوا۔
کم تعداد یہودیوں کے لیے مسلمان اکثریت کو قتل کرنا ایک مشقت طلب کام تھا ۔ جس میں آسانی پیدا کرنے کے لیے اسرائیل کے پہلے صدر اور معروف کیمادان بین گوریون نے ایک مہلک ہتھیار تیار کیا تھا جو فلسطینیوں کے کھیتوں اور مکانات کو آگ لگانے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی دوسری جنگ عظیم میں حیاتیاتی جنگ کے آلات بھی بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف استعمال کیے گئے۔
1948 کے آخر تک صیہونیوں نے فلسطین کی 80 فیصد سے زیادہ اراضی پر قبضہ کر لیا تھا۔ فلسطینی مسلمانوں کے 531 دیہات اور قصبات مکمل تباہ کر دیے گئے تھے۔ "عالمی ادارے” مسلمانوں کے کے ساتھ تمام تر تعصب اور اسرائیل کی ہمدردیوں کے باوجود فلسطینیوں کے 31 بڑے قتل عام کیے جانے کی تصدیق کرتے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک میں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو ایک جگہ جمع کر کے منظم منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔ 80 بڑے شہروں سے مسلمانوں کا وجود مٹا ڈالا گیا۔ 8 لاکھ فلسطینی مسلمان اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ایک لاکھ سے زیادہ مارے گئے۔
یہ ابتدا تھی۔ اس کے بعد اسرائیل کے قیام کے بعد جو مظالم فلسطینی مسلمانوں پر توڑے گئے۔ وہ اس سے کہیں زیادہ ہوش ربا اور دل دھلا دینے والے ہیں۔

Read Previous

فلسطینی مزاحمت ، بدلا کیا ہے ؟

Read Next

فلسطینی راکٹ حملے روکنے کے لئے اسرائیل کا آئرن ڈوم دفاعی نظام ناکام ہو گیا

Leave a Reply