
تحریر:عالم خان
ابھی ایک یہودی کو سن رہا تھا جو بار بار اپنی گفتگو میں کہہ رہا تھا کہ ازرائیل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔
یہ ایک عام سا سادہ جملہ ہے لیکن اس کے پیچھے ایک یہودی تاریخی عقیدہ ہے۔
یہود من حیث القوم تاریخ پر ناقابل یقین حد تک اعتقاد رکھتے ہیں یوں سمجھیے کہ ان کا مصدر ہی تاریخ ہے جس کا مشاہدہ دوران مطالعہ استشراق بھی کیا جاسکتا ہے کہ جو مستشرق یہودی ہو وہ تاریخ کو بہت اہمیت دیتا ہے ہر روایت کی صحت کا جائزہ تاریخی تناظر میں لیتا ہے۔
یہودی حکومت کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ تاریخ میں کوئی بھی یہودی حکومت اسی (80) سال سے زائد عرصہ نہیں رہی ہے۔ داؤد اور سلیمان علیہما السلام کی حکومت ہو یا حشمونائم کی دونوں کی عمر 80 سال سے زائد نہیں تھی۔
موجودہ ازرائیل داؤد، سلیمان علیہما السلام اور حشمونائم کے بعد یہود کی تیسری حکومت ہے جس کے بارے میں بھی یہود کافی پریشان ہیں جس کا اظہار سابق وزیراعظم ایہودا باراک نے "ید یعوت احرونوت” میں لکھے گئے ایک کالم میں بھی کیا تھا کہ ازرائیل اسی (80) کی دہائی میں ہے سابقہ تاریخی تجربات یہ ہیں کہ یہودی حکومت (80) سال سے زائد نہیں رہی ہے۔
ہنری کسنجر نے بھی (2012) میں کہا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ ازرائیلی حکومت مزید دس سال کے بعد رہے گی۔ نیتن یاہو نے (2017) میں بھی کہا تھا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ ازرائیلی حکومت سو (100) سال پورا کرے گی۔ جس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے اندر خوف زوال حکومت موجود ہے۔
موجودہ بوکھلاہٹ اس کی واضح دلیل ہے جس کو یہ بقا کی جنگ کہہ رہے ہیں۔
فلسطینیوں کی شجاعت، استقامت اور میدان جنگ میں ثابت قدمی سے ایسا ہی لگ رہا ہے کہ ان کا یہ عقیدہ درست ثابت ہو جائے گا اور یہ عن قریب مثل سابق در بہ در ہوں گے جسکی پیشن گوئی شیخ احمد یاسین نے بھی کی تھی کہ ان کی طبعی عمر پوری ہوچکی ہے 2027 کے بعد ان کا وجود نہیں رہے گا ان شاء اللہ۔