
غزہ میں گزشتہ روز جنگ بندی معاہدے کے نفاذ کے بعد، اسرائیل نے آج کم از کم 90 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا، جبکہ حماس نے تین اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کر دیا۔
آج صبح دو بسیں فلسطینی قیدیوں کو لے کر مغربی کنارے کے علاقے بیطونیا پہنچیں تو وہاں جمع ہونے والے ہجوم نے جذباتی مناظر کا مشاہدہ کیا۔ قیدیوں کے رشتہ داروں نے انہیں گلے لگایا، آنسو بہائے اور پرجوش نعروں کے ساتھ فلسطینی پرچم لہرائے۔
رہا ہونے والوں میں فلسطینی صحافی، بشریٰ التاویل بھی شامل ہیں، جنہیں مارچ 2024 میں اسرائیلی حکام نے گرفتار کیا تھا۔ رہائی کے بعد بشریٰ نے کہا کہ، انتظار بہت مشکل تھا، لیکن خدا کا شکر ہے کہ ،ہمیں یقین تھا کہ، ہماری آزادی کا وقت قریب ہے۔ بشریٰ کے والد بھی اسرائیلی جیل میں قید ہیں، لیکن وہ پر امید ہیں کہ، انہیں بھی اس معاہدے کے تحت رہا کر دیا جائے گا۔
آئندہ 42 دنوں میں تقریبا1,900 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، جبکہ حماس کے زیر حراست 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو بھی آزاد کیا جائے گا۔ رہا ہونے والے قیدیوں میں کئی ایسے ہیں جنہیں بغیر کسی الزام یا مقدمے کے انتظامی حراست میں رکھا گیا تھا، جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں اسرائیلیوں کے قتل کے الزامات میں سزا دی گئی تھی۔
آج صبح بیطونیا میں قیدیوں کے استقبال کے لیے سینکڑوں فلسطینیوں کا ہجوم جمع ہو گیا تھا ۔ عوام نے فلسطین اور حماس کے پرچم لہرائے، نعرے لگائے اور آتش بازی کی۔
23 سالہ امانداابو شرح نے کہا کہ، یہ قیدی ہمارے خاندان کی طرح ہیں، چاہے وہ خون کے رشتہ دار نہ ہوں۔
محمد، جو خود حال ہی میں اسرائیلی حراست سے رہا ہوئے تھے، نے کہا کہ، قید میں بہت سے بے گناہ لوگ، بچے اور خواتین ہیں۔ ان کی رہائی کی خوشی کا احساس ناقابل بیان ہے۔
ایک 18 سالہ نوجوان لڑکی اپنی والدہ کی رہائی کے لیے بے چین تھی، جو جنوری 2024 میں سوشل میڈیا پر مبینہ اشتعال انگیزی کے الزامات میں گرفتار ہوئی تھی۔ نوجوان لڑکی نے کہا کہ، میں سب سے پہلے اپنی والدہ کو گلے لگاؤں گی اور ہم ایک دوسرے کے بغیر گزرے وقت کے بارے میں بات کریں گے۔ یقینا اس لمحے بہت سے آنسو بہیں گے۔
نافذ شدہ معاہدے کے تحت اسرائیل اور حماس دونوں نے اپنے اپنے زیر حراست افراد کو آزاد کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ فلسطینی عوام نے اس اقدام کو ایک اہم کامیابی قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ، یہ جنگ بندی ایک دیرپا امن کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتی ہے۔