turky-urdu-logo

کیا ترکیہ ترکی سے بڑا ہے؟

کامران رفیع

ترکیہ نے جون 2022 میں "ترکی" کی بجائے "ترکیہ" کے نام کو باضابطہ طور پر اپنانے کا اعلان کیا اور اس فیصلے کی توثیق اقوام متحدہ نے بھی کردی۔ یہ محض نام کی تبدیلی نہ تھی بلکہ ترک عزائم کا بالواسطہ اظہار تھی ۔ اسی لیے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے حال ہی میں دعوی کیا ہے کہ، "ترکیہ، ترکی سے بڑا ہے"۔ کیا یہ محض ایک نعرہے یا ترکیہ کے علاقائی اور عالمی کردار کے لیے ایک وژن کا اظہار ہے؟ اس تحریر میں ہم جائزہ لیں گے کہ کیا واقعی  ترکیہ ترکی سے بڑا ہوچکا ہے اور اسے اس راستے میں کن چیلنجز کا سامناہے !

تاریخی تناظر اور خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں

تاریخی طور پر، ترکی یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک پل کی حیثیت سے تہذیبوں کو جوڑنے میں نمایاں رہا ہے۔ 1923 میں عثمانی سلطنت کے خاتمے اور مصطفیٰ کمال اتاترک کے زیر قیادت جمہوریہ کے قیام نے ترکی کو جدیدیت، سیکولرازم، اور مغربیت کی طرف مائل کیا۔ سرد جنگ کے دوران، ترکی اور سوویت یونین کی جغرافیائ قربت کے باعث سویت روس کے خلاف مغربی حکمت عملی کے لیے ترکی ایک ناگزیر حیثیت اختیار کر گیا۔

تاہم سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ترکیہ کو اپنی خارجہ حکمت عملی میں نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ سوویت یونین کے خاتمے سے پیدا ہونے والے خلا نے ترکیہ کو اپنی پالیسیوں پر از سرِ نو غور کرنے پر مجبور کیا۔ "پڑوسیوں کے ساتھ مکمل سلجھاؤ” کے اصول کے تحت، ترکیہ نے تقریباً پندرہ سال تک خطے میں پرامن تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی۔

شام کی خانہ جنگی نے ترکیہ کی نرم چہرے  کو مسلم عوام میں مزید موثربنایا۔ مگر حالات  نے نرم کی بجائے گرم اقدامات کا مطالبہ کیا ۔ 2011 کے عرب بہار نے ترکیہ کی خارجہ پالیسی کو ایک دوراہے  پرلاکھڑا کیا۔ پناہ گزینوں کے بحران، اندرونی بغاوتوں، اور کرد عسکریت پسندی جیسے مسائل نے ترکیہ کو سنگین خطرات سے دوچار کر دیا۔ نتیجتاً، انقرہ کو اپنی خارجہ حکمت عملی میں سخت اور فیصلہ کن تبدیلیاں کرنی پڑیں۔ شام، عراق، اور لیبیا جیسے ممالک میں جاری تنازعات میں  ترکیہ  نے خاموش تماشائی بننے  کی بجائے اپنی ستریٹجک ڈیپتھ کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد، اردگان حکومت نے ایک زیادہ جارحانہ داخلہ و خارجہ پالیسی اپنائی، جس میں غیر جانبداری کے بجائے آگے بڑھنے کو ترجیح دی گئی۔ یہ وژن عملی، ترک قوم کی خواہشات، اورتاریخی عثمانی اثر و رسوخ کی جھلک پیش کرتا ہے۔ اس نئ پالیسی سے یہ واضح ہوگیا کہ ترکیہ ایک کثیر قطبی دنیا میں علاقائ اور عالمی قیادت میں اپنا کرداررفتہ رفتہ بڑھا رہا ہے۔

ترکی کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت

ترکیہ کی نئی خارجہ پالیسی میٰں اس کی فوجی حکمت عملی اس کی ابھرتی ہوئی علاقائی طاقت کی بنیاد ہے۔  امریکہ کے بعد ترکیہ نیٹو کی دوسری سب سے بڑی فوجی قوت بن چکا ہے ۔ ایک مضبوط مقامی دفاعی صنعت کے ساتھ، ترکی مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، اور قفقاز کے تنازعات میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر ابھرا ہے۔ پچھلی دہائی میں، ترکیہ نے اپنی 75 فیصد دفاعی ضروریات مقامی طور پر تیار کر کے ایک مضبوط دفاعی شعبہ قائم کیا ہے۔ خاص طور پر بائراکتار ٹی بی 2 ڈرونز نے نگورنو-کاراباخ، یوکرین، اور لیبیا جیسے تنازعات میں زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس نے ترکی کی جنگی صلاحیتوں کو بڑھایا اور دفاعی برآمدات کو 2023 میں 4 ارب ڈالر تک پہنچایا۔ شام، عراق، اور لیبیا میں ترکیہ  کے فوجی  اثر و ردسوخ نے علاقائی تنازعات کی شکل بدل  کر رکھ دی ہے۔اور ترکیہ اپنے اردگرد "سیف زون ” بنا کراپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنا رہا ہے

 اسی طرح بحری "بلیو ہوم لینڈ” حکمت عملی ترکیہ کی ایک جامع بحری پالیسی ہے،۔ اس پالیسی کا مقصد اپنے سمندری وسائل، توانائی کے ذخائر، اور تجارتی راستوں پر کنٹرول کو یقینی بنانا ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت ترکیہ نے مشرقی بحیرہ روم، بحیرہ اسود، اور ایجیئن سمندر میں اپنی بحری موجودگی کو مضبوط کیا ہے۔ یہ حکمت عملی نہ صرف تجارتی راستوں کی حفاظت اور جغرافیائی اہمیت کو بڑھانے میں ترکیہ کی  معاون ہے   بلکہ توانائی کے وسائل پر ترک دعووں کو بھی تقویت دیتی ہے ۔

اقتصادی پالیسی: چیلنجز اور مواقع

ترکی کے لیے اقتصادی استحکام اس کی جغرافیائی سیاسی امنگوں کو پورا کرنے میں کلیدی کردار رکھتا ہے۔ اردگان کی غیر روایتی اقتصادی حکمت عملی نے سود کی شرح میں اضافے کی روایت کو رد کر کے کم سودی قرضوں اور سرمایہ کاری کو ترجیح دی، جس کے نتیجے میں افراط زر 2022 میں 85 فیصد تک پہنچ گیا۔ اگرچہ اس سے صارفین کی قوت خرید کمزور ہوئی اور درآمدات مہنگی ہوئیں، لیکن ترک لیرا کی قدر میں کمی نے عالمی منڈی میں ترک مصنوعات کو زیادہ مسابقتی بنا دیا۔ اس پالیسی نے ٹیکسٹائل، آٹوموٹو، اور الیکٹرانکس جیسے شعبوں میں ترقی کو فروغ دیا اور ترکی کو ایک ابھرتے ہوئے مینوفیکچرنگ مرکز کے طور پر پیش کیا جو بعض صنعتوں میں چین کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

مزید برآں، بحیرہ اسود میں 540 ارب مکعب میٹر گیس کے ذخائر کی دریافت ترکی کی توانائی کی ضرورت کو کم کر سکتی ہے اور اس کی معیشت کو مضبوط بنا سکتی ہے۔ بکو-تبلیسی-جےہان اور تجویز کردہ ٹرانس-کاسپین پائپ لائن جیسے منصوبے ترکی کو توانائی کے اہم راستوں میں بدل سکتے ہیں، جو وسطی ایشیا کی ہائیڈرو کاربنز کو یورپ تک پہنچاتے ہیں۔ سیاحت بھی ترکی کی معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو ہر سال اربوں ڈالر کی آمدنی فراہم کرتی ہے اور اقتصادی لچک کو برقرار رکھتی ہے۔

ترک وسطی ایشیا

وسطی ایشیا کی تہذیبی اور ثقافتی بنیادیں ترک تاریخ اور زبان کے ساتھ گہری وابستگی رکھتی ہیں۔یہ خطہ   ترک عوام کے تاریخی نقطہ آغاز کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ تاریخی طور پر ترک قبائل انہیں علاقوں سے نکل کر موجودہ ترکیہ اور برصغیر کے علاقوں میں پہنچے تھے ۔ یہ خطہ قدیم شاہراہ ریشم کا بھی اہم حصہ رہا ہے جو ایشیا اور یورپ کو آپس میں جوڑتا تھا۔انہی وجوحات کے باعث وسط ایشا  ترکیہ کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

انقرہ کے وژن میں وسطی ایشیا کو ایک وسیع ثقافتی اور سیاسی اتحاد کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو اناتولیہ سے لے کر الٹائی پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس اتحاد کا مقصد مشترکہ ورثے، زبان، اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ ترکی نے وسطی ایشیا میں اپنے اثر و رسوخ کو مضبوط کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جن میں ترک زبانوں کو یکجا کرنے کی کوشش، تعلیمی مواقع کی فراہمی، اور تجارتی روابط کو وسعت دینا شامل ہے۔

اسی طرح  ترکی نے اقتصادی اور دفاعی تعاون کو بھی اہمیت دی ہے، جس کے تحت وسطی ایشیائی ممالک کو جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ اقدامات خطے میں ترکی کے اثر کو روس اور چین کی روایتی بالادستی کے مقابلے میں ایک نیا متبادل فراہم کرتے ہیں۔ وسطی ایشیا نہ صرف ترکی کے لیے تاریخی اور ثقافتی ورثے کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ یہ اقتصادی اور جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم سنگِ میل بھی ہے جو انقرہ کے عالمی عزائم کو تقویت دیتا ہے۔تاہم یہ علاقہ چونکہ سویت روس کے زیر اثر بہت سی تبدیلیوں سے گزرا ہے اور اب بھی گہرےروسی سیاسی، لسانی و ثقافتی  اثرات رکھتا ہے اس لیے اس خطہ میں بھی ترکیہ کو اپنی طاقت قائم کرنے کے لیے کافی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اس کے علاہ یہ خطہ تاریخی طور پر ترک اور چینی قوموں کے درمیان رسہ کشی کا میدان بھی رہا ہے۔

عالمی طاقتوں کا چیلنج !

ترکیہ  کو اپنی امنگوں کو عالمی طاقتوں کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کے ساتھ متوازن رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔اور ترک طاقت کا مستقبل اسی بات پر منحصر ہے کہ ترکیہ کیسے اس عالمی رسہ کشی مکے درمیان خود کو بچاتا بھی ہے اور آگے بھی بڑھتا ہے ۔ ترکیہ ایک طرف تو نیٹو کاحصہ ہے مگر بہت سے معاملات میں روس کا اتحادی بھی ہے ۔  توانائی منصوبوں جیسے ترک اسٹریم پر تعاون کے باوجود، ترکی اور روس شام، لیبیا، اور وسطی ایشیا میں اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کا باہمی تعلق حقیقت پسندانہ   لیکن تناؤ سے بھرپورہے۔ ترکی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی حمایت کرتا ہے اور اپنے محل وقوع کو ایک ٹرانزٹ حب کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ تاہم، اس تعلقات کو ترکی کی جانب سے چین میں ایغور مسلمانوں کی حمایت سے پیچیدگی کا سامنا ہے۔ ترکی کی آزادانہ پالیسیاں، جن میں روسی ایس-400 میزائلوں کی خریداری شامل ہے، نیٹو اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کا باعث بنی ہیں۔ اس کے باوجود، ترکی کا اسٹریٹجک محل وقوع اسے اتحاد کے لیے بدستور اہم بناتا ہے

اصل امتحان!

شام ترکی کی امنگوں کے لیے ایک اہم امتحان رہے گا۔ انقرہ کی فوجی کارروائیوں کا مقصد سرحدوں کو محفوظ بنانا، کرد عسکریت پسندی کا خاتمہ، اور پناہ گزینوں کے بہاؤ کو منظم کرنا ہے۔ تاہم، امریکہ، روس، اور اسد حکومت کی مزاحمت ترکی کے مقاصد کو پیچیدہ بناتی رہی ہے ۔ اب ترک تعاون سے شامی مزاحمت نے  اسد حکومت کا خاتمہ کردیا ہے اورشام و عراق میں  ترک اثر و نفوذ کافی بڑھ گیا ہے۔تاہم   اس  واقعہ نےترکیہ اور شام کو عالمی طاقتوں کا کانٹا بھی بنا دیا ہے ۔ ترک حکمت عملی کا اصل امتحان یہی ہے کہ وہ کیسے اس خطہ  میں عالمی طاقتوں کے اثر و نفوذ کو کم  مگر مطمئن رکھتے     ہیں ۔

اردگان کا "بڑے ترکی” کا وژن، جو فوجی طاقت، ثقافتی سفارت کاری، اور اقتصادی لچک کا امتزاج ہے، ایک جرات مندانہ خواب ہے۔ آیا یہ وژن حقیقت بنے گا یا نہیں، اس کا انحصار انقرہ کی اس صلاحیت پر ہوگا کہ وہ ایک کثیر قطبی دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال کو کس طرح سنبھالتا ہے۔

Read Previous

ہم، ترکیہ کو جوہری طاقت والے ممالک کی صف میں شامل کرنے کے لیے پرعزم ہیں: صدر ایردوان

Read Next

صدر ایردوان کی ترکیہ میں تمام نسلی گروپوں کے درمیان اتحاد کی اپیل

Leave a Reply