تحریر: معوذ حسن
کیا فلسطین میں جنگ بندی ممکن ہے؟ جب ترکش ٹی وی کے ساتھ کام کرنے والے ایک صحافی احمد برہوم سے ترکیہ اُردو نے یہ سوال کیا تو ان کا مؤقف تھا کہ سیاسی طور پر یہ انتہائی مُشکل نظر آتا ہے، گو عالمی سطح پر اسرائیل پر دِن بدن دباؤ بڑھایا جا رہا ہے تاہم وہ اپنی ہٹ دھرمی پر برقرار ہے ، لیکن احمد برہوم نے کہا کہ اگر جلد از جلد جنگ بندی نہیں ہوتی تو فلسطینیوں کی نسل کشی اور تباہی سنگین صورتحال اختیار کر جائے گی۔
احمد برہوم ایک فلسطینی صحافی ہیں جو اِس وقت ترکش ٹی وی کے ساتھ رفح میں وار رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ احمد برہوم نے ترکیہ اُردو کو بتایا کہ ہم نے جنگ کے دوران لوگوں کے مکان تباہ ہوتے ہوئے دیکھے ہیں، انہوں نے کہا کہ اگر کوئی فلسطین میں بچوں کے لہو، خواتین کی بے حرمتی، زخمیوں کی چیخ و پکار اور بزرگوں کی بے بسی کی بابت پوچھے تو میں اِس کا سب سے بڑا گواہ ہوں۔ انہوں نے ترکیہ اردو سے جنگ کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اِس جنگ میں مردوں کے آنسوؤں کو ریکارڈ کیا، ماؤں سے اُن کے لال چِھن جانے کی ویڈیوز دُنیا کو دکھائیں اور لہو میں تر میں بچوں کی فاتحانہ مسکراہٹ کو دُنیا تک پہنچایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنگ کے حالات میں رپورٹنگ کرنا میرے لیے انتہائی خطرناک ہے خاص طور پر جب اردگرد باردو پھٹ رہا ہو، لوگ اپنے اعضاء سے محروم ہو رہے ہوں، بچے اپنے والدین اور والدین اپنے بچوں کو ڈھونڈ رہے ہوں اور آپ کو ایک ایسی غاصب فوج کا سامنا ہو جو انسانی اور جنگی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی ہے۔
جب احمد برہوم سے غزہ کے حالات کی بابت دریافت کیا تو اُنہوں نے کہا کہ میں نے غزہ میں حالات کو کے تصور سے بھی زیادہ ہولناک پایا ۔غزہ اِس وقت ایک قیامتِ صغریٰ سے گزر رہا ہے اور بطور صحافی میں اس بات کواچھی طرح سمجھتا ہوں ۔ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطین کے لیے اپنا کردار ادا کرے کہ صحافت ہی مسئلہ فلسطین پر عالمی سطح پر لوگوں کو آگاہی فراہم کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہ فلسطین میں کام کرنے والے صحافیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے انہیں اغوا کیا جاتا ہے، گرفتار کیا جاتا ہے اور چُن چُن کر قتل کیا جاتا ہے۔
انہوں نے رپورٹنگ کے دوران کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے ترکیہ اُردو کو بتایا کہ میں خان یونس میں آسٹرین ٹاور کے نزدیک کوریج کر رہے تھا جب اچانک میں اور میرے چند ساتھی اسرائیلی بمباری کے نرغے میں آ گئے، اسرائیلی فوجیوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا، اور ہم قریباً دو گھنٹے ریت کی رکاوٹوں میں فائرنگ سے بچنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس واقعے میں میرا ایک ساتھی شہید ہو گیا اور کئی ساتھی زخمی بھی ہوئے ۔

اُنہوں نے ترکیہ اُردو کو بتایا کہ جنگ نے میری نفسیات اور جسمانی صحت پر گہرا اثر مرتب کیا،مسلسل خاک اور خون دیکھ کر اور بارود کی بُو سونگھ کر میں بے خوابی کا شکار ہو ں ۔ اگر کبھی نیند آ بھی جائے تو مجھے زخمی بچوں اور شہید ماؤں کے خواب آتے ہیں ۔اُنہوں نے اپنی نفسیاتی صحت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اِس وقت مجھے علاج کی شدید ضرورت ہے۔
احمد برہوم رفح بارڈر پر اپنی صحافتی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ، انہوں نے ترکیہ اُردو کو رفح کے حالات سے آگاہی فراہم کرتے ہوئے کہا کہ اِس وقت ہزاروں فلسطینی رفح میں پھنسے ہوئے ہیں، موت سے بھاگ کر مصر جانے کے لیےاُنہیں 5000 ڈالرز درکار ہیں جبکہ عارضی طور پر موت کے چُنگل سے نکلنے کے لیے لوگ غزہ کے مرکزی علاقوں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ انہوں نے رفح میں ہونے والی حالیہ بمباری کے متعلق کہا کہ وہ ایک بھیانک دِن تھا جب اسرائیلی بمباری نے چند لمحوں میں ہی پناہ گزین فلسطینیوں کو جلا دیا۔ انہوں نے غزہ میں قحط کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ترکیہ اُردو کو بتایا کہ غزہ میں اس وقت امدادی سامان کی شدید ضرورت ہے لیکن اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صیہونی افواج اور عوام ہیں ۔ سینکڑوں امداد سے بھرے ٹرک آتے ہیں لیکن بہت کم فلسطینیوں تک پہنچ پاتے ہیں ۔ اسرائیل کا بنیادی مقصد فلسطینیوں کو جنگ اور قحط کے ذریعے ختم کرنا ہے اور اسرائیل نسل کشی میں ہولناک حد عبور کر چُکا ہے۔
جنگ اور چیخ و پکار کا بہادری سے سامنے کرنے والے فلسطینی صحافی احمد برہوم نے ترکیہ اُردو کو بتایا کہ فلسطین میں کام کرنے والا صحافی ہر وقت ٹارگٹڈ حملوں کے خطرے میں ہے، فلسطین میں صحافیوں کو بچانے کے لیے کوئی عالمی تحفظ فراہم نہیں کیا جا رہا۔
